• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا اور یورپ کے نقشے پر اب اآئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے لیکن انیس سو اسی تک اسکا شمالی حصہ برطانیہ کے زیرتسلط تھا اور وہاں آٗئر لینڈ کے لوگوں یا آئرش عوام نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی تھی جس کے لئے انہوں نے آئرش ریپبلک آرمی کے روپ میں پرتشدد جدوجہد جیسا غلط راستہ بھی اپنایا ہوا تھا تو پر امن جدوجہد کا صحیح راستہ بھی۔ ایسے آخرالذکر راستے کا ایک مسافر نوجوان آئرش حریت پسند قیدی ’’بوبی سینڈس‘‘ بھی تھا جس نے اپنے مطالبات کے حق میں جیل انتظامیہ کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال کی تھی۔ اس نوجوان آزادی پسند کی حالت دن بدن غیر سے غیر تر ہوتی گئی لیکن برطانوی استعماری حکمران تھے کہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ دنیا بھر سے تمام احتجاج اور اپیلوں کے باوجود جس طرح پاکستان میں آمر ضیا الحق کی طرف سے میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی اسی طرح بوبی سینڈس کی کھولی کے دروازے اس پر تب تک وا نہیں ہوئے جب تک اس کی آخری سانس کا پنچھی پرواز نہ کر گیا۔
مجھے یاد ہے بوبی سینڈس کی تادم مرگ بھوک ہڑتال کے پہلے دن سے اس کے تادم مرگ تک اسوقت اگرچہ نہ سوشل میڈیا تھی نہ ملٹی میڈیا یا ڈیجیٹل نیوز نیٹ ورکس لیکن پھر بھی میرے پسندیدہ جریدے لائف میگزین یا پھر سندھی زبان کے روزنامہ ہلال پاکستان میں فقیر محمد لاشاری کی زیر ادارت نکلنے والے ہفت روزہ میگزین میں بوبی سینڈس کی حالت اور احتجاج کی لحظہ بہ لحظہ کے احوال جاری ہوتے رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح لائف میگزین نے بوبی سینڈس کی اسکی محبوبہ کے ساتھ ہونیوالی آخری ملاقات کے دوران انکے بوس و کنار کی تصویر بھی شائع کی تھی۔ بوبی سینڈس نے بوس و کنار کے دوران اپنے ساتھیوں کے نام اپنا آخری پیغام ایک ٹوائلٹ پیپر پر لکھا تھا جو اسکی محبوبہ جیل اختیاریوں کی نظروں سے بچاتی ہوئی اسمگل کر کر لائی تھی۔ فقیر محمد لاشاری نے اس خط کا سندھی میں ترجمہ اپنے اخبار کے ہفت روزہ میگزین میں شایع کیا تھا۔
بوبی سینڈس کی موت پر دنیا سراپا احتجاج بن گئی تھی یہاں تک کہ ایران کی خمینی حکومت جس کا خود اپنا حقوق انسانی کا ریکارڈ بالکل اچھا نہیں تھا انہوں نے بھی تہران کی اس شاہراہ کا نام ’’شاہراہ بوبی سندس‘‘ رکھ دیا تھا جس پر برطانوی سفارتخانہ واقع تھا اور برطانوی سفیر کے لئے ضرور سبقی اور ذہنی کوفت کا باعث بنا ہوگا کہ روزانہ اس کا اپنی رہائش گاہ سے سفارتخانے تک گزر اس شاہراہ سے ہوتا تھا جو آئرش آزادی پسند بوبی سینڈس کے نام سے منسوب تھی۔
ان دنوں پاکستان میں ضیا ء آمریت تھی اور غیرملک کسی بھی ہلچل پر آمریت مخالفوں کی طرف سے خوب بھڑاس نکالی جاتی تھی۔ پھر فلپائین میں کوری اکینو کی فتحمند واپسی یا مارکوس حکومت کی پسپائی ہو یا کچھ اور۔ اسی طرح بوبی سینڈس پر بھی شیخ ایاز سمیت اچھے خاصے سندھی شاعروں نے شاعری کی تھی۔ پھر یہی دن تھے کہ آْئرش دہشت پسندوں نے ایک بم حملے میں غیر منقسم لیکن انگریزوں کے مقبوضہ ہندوستان کے آخری وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کو ایک بم حملے میں اڑا دیا تھا۔ وہ لارڈ مائونٹ بیٹن جو ہندوستان کی تقسیم کے وقت دس لاکھ سے زیادہ بیگناہ ہندو، مسلم سکھوں کے قتل عام سے بہرحال بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ واقعہ بھی شیخ ایاز کے قلم سے نہیں بچ پایا تھا۔ پاکستان میں ضیاالحق کا زمانہ تھا لیکن اسلام آباد یونیورسٹی میں بھی آئرش آزادی پسندوں کے گیت اسٹیریو ٹیپ ریکارڈروں پر سنے جاتے تھے۔ دارالحکومت کے فیشن ایبل جناح سپر پر سبز چائے چاٗئے یا قہوہ گھروں سے نکلتے چلتے اوور کوٹ پہنے سیاسی نوجوان کتاب گھروں کی شیلفوں پر کتابوں کو دیکھنے کے بہانے ان میں ضیا مخالف پمفلیٹ چھوڑجاتے۔ یہ بوبی سینڈس کی تادم مرگ بھوک ہڑتال سے چند سال پہلے کی بات ہے۔ اسلام آباد یونیورسٹی میں۔ کیسے کیسے نوجوان تھے۔ انہی دنوں میرا دوست زاہد مخدوم بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا تھا جو فوجی اور سول آمروں کے خلاف لڑائی کی اپنی تاریخ رکھتا ہے۔
سبز چائے پر لوگوں نے آئرش آزادی پسندوں کا نہیں بلکہ گاندھی کا عدم تشدد کا راستہ اپنانا تھا۔ پرامن احتجاج اور بھوک ہڑتال سمیت۔ ضیا نے اپنے شخصی آمرانہ راج کی تحاریک کو لسانی اور فرقہ واریت رنگ دیا جس سے طلبہ یونیوں پر بندش کے باوجود اسلام آباد یونیورسٹی سمیت تعلیمی اداروں کے درسی و تدریسی ماحول کو بھی لسانی اور فرقہ وارا نہ بنیاد پر تقسیم کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام آباد یونیورسٹی جو روشنخیالی اور آمریت مخالف ہوا کرتی تھی وہاں سے باقاعدہ اساتذہ کو چن چن کر نکالا گیا بلکہ اپنے یہاں اب نام نہاد طلبہ یونینیں سندھی، بلوچ،پشتون، سیرائیکی،پنجابی کی بنیاد پر اگر بنوائی نہیں گئیں تو مگر ان میں ’’پراسرار بندے‘‘ بھی فٹ کئے گئے۔ میں حیران ہوں کہ آبپارہ کے نزدیک اس یونیورسٹی میں پرویز ہود بھائی، وسیم صاحب، ڈشکہ سید اور ان جیسے لوگ سروائیو کیسے کر گئے۔ شاید امام بری کی وجہ سے!
لسانی بنیادوں پر گزشتہ مئی جو معمولی بات پر سندھی اور بلوچ طلبہ تنظیموں میں جھگڑا ہوا جو تشدد میں بدل گیا۔ جہاں تھوڑی آبادی والے صوبے کے نہتے طلبہ پر شاید پہلے ایک دوسرے صوبے کی لسانی طلبہ یونین سے وابستہ افراد نے حملہ کیا اور پھر اس کے جواب میں طلبہ یونین سے تعلق رکھنے والوں نے مخالف طلبہ پر انتہائی بہیمانہ تشدد کیا جس میں طلبہ کو چھتوں پر سے پھینکا گیا یا کسی نے چھتوں سے کود کر جان اپنی جانیں بچائیں۔ گویا اس موقع آبپارہ جیسے حساس اداروں کے بے حس اہلکار بھی ’’کیجیو ںظارہ دور درو سے‘‘ کی کلپ بنے رہے۔ اس کی بلوچ اور سندھی ’’بیڈبوائز‘‘ سے بھی بدتر جواب داری یونیوسٹی اور اسلام آباد انتظامیہ پر پڑتی ہے۔ جب یونیورسٹی اور اسلام آباد انتظامیہ کو پتہ تھا کہ دونوں گروہوں میں کشیدگی تھی تو اسے خونریزی میں بدلنے سے پیشگی روکا کیوں نہیں گیا۔ بجائے اس کے دنوں بعد سندھی اور بلوچ طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا اور ہوسٹل و یونیورسٹی سے ریسٹیگیٹ بھی کیا گیا۔ جنہوں نے بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے تحقیقات کی رپورٹ آنے تک ہوسٹل میں رہنے اور کلاس اٹینڈ کرنے کا حکم امتناعی بھی حاصل کرلیا۔ سندھی اور بلوچ طلبہ کے بیچ صلح بھی ہوگئی۔
طلبہ مسائل پر جب طلبہ نے تحریک چلائی تو اس کی پاداش میں بلوچ طلبہ کو ریسٹیگیٹ کرلیا گیا۔ جن میں سرگرم بلوچ طالب علم کارکن نوروز خان جمالی شامل ہے جو اب تادم مرگ بھوک ہڑتال پر ہے۔ ناموں میں کیا رکھا ہے۔ لیکن ایک بلوچ نوروز خان بھی تھا جسے اسلام آباد نے پھانسی پر چڑھایا تھا۔ مگر میں یہاں اس نوجوان نوروز جمالی کی بات کر رہا ہوں جو تادم مرگ بھوک ہڑتال پر ہے۔ اس سے قبل احتجاجی بلوچ طلبہ پر جس طرح اسلام آباد پولیس اور سادہ لباس والوں نے بہیمانہ تشدد کیا اس کی تصویریں میڈیا پر دیکھ کر لگتا ہے واقعی اسلام آباد سندھیوں اور بلوچوں کے لئے کوفہ ہے۔ کیا یہ نوجوان بلوچ دامن کوہ کے پہاڑوں پر بغاوت کر کر چڑھ گئے تھے یا مار گلہ کے پہاڑوں پر! یہاں نہ کوئی آئرش ریپبلک آرمی ہے نہ کوئی ایسی تحریک چل رہی ہے لیکن بلوچ نوجوانوں کو بوبی سینڈس کیوں بنایا جارہا ہے۔ اسلام آباد یونیورسٹی میں پڑھنے کو آنیوالے نوجوان اپنی پڑھائی میں بہت سنجیدہ ہوتے ہیں۔ خاص طور سندھ اور بلوچستان سے آنیوالوں کا مجھے پتہ ہے۔ نوروز میرے بھائی تم بھی نہ یہ تادم مرگ بھوک ہڑتال کے بجائے اپنے مطالبات منوانے کا کوئی اور پرامن حل ڈھونڈو ۔

تازہ ترین