• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کونجوں کی ڈاریں موسم بدلنے پرباہر کے ممالک سے آ تی ہیں اور پھر جب یہاں موسم بدلنے لگتا ہے تو یہ کونجوں کی ڈاریں واپس چلی جاتی ہیں۔آج ہم جس ڈار کا ذکر رہے ہیں اس نے بہت عرصہ تک پاکستانی ساحلوں پر اپنے پر پھڑ پھڑا ئے ہیں ۔اب پھر رت بدلنے یہ ڈار واپس چلی گئی ہے ۔۔کیونکہ جب رت بدلتی ہے تو اس بات کا بہت خطرہ ہوتا ہے کہ پوری ڈار ہی شکاریوں کے نشانے پر نہ آ جائے ۔
رت بدلنے میں دھرنے کا بھی بہت عمل دخل ہے ۔ اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کادھرنا آج چودھویں دن میں داخل ہو گیا ہے ۔اصولاً تو وزیر قانون زاہد حامد کو پہلے ہی دن مستعفی ہوجانا چاہئے مگرہمارے یہاں طبقہ ِ حکمرانیہ میں شرم کی کوئی روایت کبھی موجود نہیں رہی کیونکہ یہ روایت اپنی پاسداری میں خونِ جگر کی جس سرخی کا تقاضا کرتی ہے وہ سرخی تو کب کی سفیدی میں تبدیل ہو چکی ۔چلو وہ مستعفی نہیں ہونا چاہتے تھے نہ ہوتے حکومت تو ان سے وزارت کا قلم دان واپس لے سکتی تھی ۔مگر حکومت نے اتنی اخلاقی جرات کا بھی مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ یہ مظاہرہ کرنے کو بھی تو وہی خونِ جگر درکار تھا جو کب کا سفید ہو چکا بلکہ الٹا بڑی ڈھٹائی سے کہا گیا کہ پارلیمنٹ ختم نبوت کی محافظ ہے ۔وہی پارلیمنٹ جس میں ختم نبوت کے خلاف قانون پاس کردیا گیا تھا۔
ویسے میں حیران ہوں جب ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کی جارہی تھی تو اس وقت مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر کہاں تھےجو ہر روز نظامِ مصطفی کے نعرے لگاتے ہیں ۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکہاں چلے گئے تھے وہ اسحاق ڈارجوداتا دربار کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں ۔وہ اسحاق ڈار جوبری امام دربار کے کرتا دھرتا ہیں ۔ ابھی ان کے زیرنگرانی بری امام کمپلیکس کی تعمیر کا کام مکمل ہوا ہے ۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق انہوں نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم پاکستان کو بھجوا دیا ہے ۔مگر زاہد حامد بدستور اسی طرح وزیر قانون ہیں ۔اسحاق ڈار کو بھی بہت پہلے وزارت چھوڑ دینا چاہئے تھی ۔چلو ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی ۔بس اسی بات کا افسوس ہے کہ اب انہیں اپنی آخری عمر برطانیہ کی دھند میں گزار نی پڑے گی ۔ان کے اگرچہ بہت سے اکائونٹس منجمد ہو چکے ہیں مگران کے خیال میں اللہ تعالیٰ کا ان پر بہت کرم ہے ۔ پاکستان سے باہر بھی ان کے پاس دولت موجود ہے ۔یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ افسوس کی جگہ برطانیہ نہیں کچھ اور ہے۔ ایک جملہ اور بھی دماغ میں آرہا ہے۔ کہتے ہیں نئی شادی کسی کسی کےلئے خوش بختی کا سبب بنتی ہےاور ہاں قارئین !اِس جملے سے اسحاق ڈار کا کوئی تعلق نہیں۔
اسحاق ڈار دنیا کے وہ واحد وزیر خزانہ تھے جو اتنے مقدمات کے بعد بھی اپنے عہدے پر فائز رہے ۔حتیٰ کہ ان کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالنے کے عدالتی احکام جاری ہو گئے مگر وہ وزیر خزانہ رہے ۔وہ کافی دنوں سے یخ بستہ برطانیہ کے سینٹرلی ہیٹڈ خواب گاہوں سے وزارت خزانہ چلائے جارہے ہیں ۔استعفیٰ کی خبر گرم ہے بلکہ پلیٹ میں لگ کر میز پر بھی آ گئی ہے۔بیچارے ڈار صاحب کوایک آدھ ماہ میں بہت سی سرکاری کمیٹیوں کی سر براہی سے بھی ضرور فارغ کیا گیا ہے ۔مگر اب بھی وہ بے شمار کمیٹیوں کے چیئرمین ہیں کمیٹی چاہے داتا دربار کی ہو یا یا وزراتِ تجارت کی ہر کمیٹی کی سربراہی انہوں نے ہمیشہ اپنا حق سمجھا ہے ۔یقیناََ خود ساختہ جلاوطنوں کی جو کمیٹی لندن میں تشکیل پائے گی( یعنی جن کے نام ای سی ایل میں ڈالے جارہے ہیں ان لوگوں کی کمیٹی ) تواس کے چیئرمین بھی ڈار صاحب ہی بنائے جائیں گے ۔
حدیبیہ پیپر ملز میں جو بیان حلفی ڈار صاحب دے چکے ہیں ۔وہ شریف فیملی کےلئے خطرناک ترین چیز ہے ۔اگر چہ حدیبیہ کے معاملے میں شہباز شریف کی تگ و دو بہت ثمر آور رہی ہے مگر یہ وہ تلوار ہےجو ہمیشہ شریف فیملی کی گردن پر لٹکتی رہے گی ۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایف بی آر کے چیئرمین سے کرپشن کے متعلق جو جواب طلب کیا ہے ۔اطلاعات کے مطابق اس پر بھی ڈار صاحب کو بہت تکلیف ہوئی ہے ۔یقینا دل کی تکلیف میں بھی کچھ اضافہ ہوا ہوگا۔
وزیر اعظم نےجن بیورو کریٹس کے متعلق انکوائری رپورٹس طلب کی ہیں وہ تمام اسحاق ڈار کے تعینات کردہ ہیں ۔اسحاق ڈار جب نئے نئے وزیر خزانہ بنے تھے تو میں نے ان سے ملنے کی کوشش کی تھی ۔میری ملاقات کےلئے عطاالحق قاسمی نے انہیں کئی فون کئے مگر ان کی طرف سے جواب نہیں آیا تھا۔میں اپنے دوست کے ساتھ برطانیہ کی مسلمان چیئرٹیز کی طرف سے ان دنوں یہ آفر لایا تھا کہ ہم لوگ ہر سال دوسو ملین پونڈ کی فنڈنگ پاکستان لائیں گے صرف بیت المال ہمارے حوالے کر دیجئے ہم یہ ساری فنڈنگ بیت المال کے پلیٹ فارم سے مختلف پروجیکٹ میں خرچ کریں گے ۔وزیر خزانہ سے مایوس ہو کر اُس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کی وساطت سے نواز شریف تک اپروچ کی مگر انہوں نے کہا کہ میں بیت المال اپنے کسی دوست کے بیٹے کو دینے کا وعدہ کرچکا ہوں اب کچھ نہیں ہو سکتا اور پھر وہ دوسو ملین پونڈ ہر سال پاکستان آنے سے رہ گئے۔پتہ نہیں آ ج پرویز رشید کہاں ہیں ۔اسحاق ڈار کے ساتھ لندن میں یا پنجاب ہائوس کے کسی کمرے میں ۔کونجوں کی ڈار واپسی کے سفر پر رواں دواں ہے ۔ موسم بدل چکا ہے۔دریا ئوں میں پانیوں کی رنگت تبدیلی ہو چکی ہے ۔درختوں کے جسموں سے پتوں کے پر اڑ چکے ہیں ۔بے شک ’’واپسی کا سفر اتنا آساں نہیں ‘‘مگریہ شاہانہ مزاج لوگ جیلوں کی قیام گاہوں میں کہاں قیام کر سکتے ہیں کیونکہ جیل تو چھوٹے مجرموں کے لیے بنائی جاتی ہے سوبرطانیہ یا سعودیہ کا ایجوئر روڈ ہی ان کو اپنی بانہوں میں لے سکتاہے جہاں ایک ایک فلیٹ چالیس چالیس ملین پونڈ کاہے ۔جہاں ایم کیو ایم کا بانی بھی رہتا ہے اور نواز شریف بھی ۔جہاں اور بھی بہت سےپاکستانی سیاست دانوں کے فلیٹس اور مکان ہیں۔ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت کا ایک بڑا حصہ اسی سڑک پر استعمال ہوا ہے۔کونجوں کی ڈاریں آ ج کل یہیں اتری ہوئی ہیں۔

تازہ ترین