• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی عوام سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے اس قدر وعدے منزل ایفا تک نہ پہنچے کہ اب کوئی دعویٰ انہیں کم ہی اطمینان سے ہمکنار کرتا ہے۔لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ ہونے اور مہنگی بجلی کی وجوہات وہ نامناسب معاہدے ہیں جو ماضی کی حکومتوں نے کئے۔کسی ذی شعور نے ملک کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لئے بجلی کی پیداوار کے متبادل ذرائع پر سنجیدگی سے اور کماحقہ عملدرآمد نہ کیا۔ چین سے سی پیک معاہدے کے حوالہ سے نوید سنائی گئی کہ وافر بجلی مہیا ہو گی لیکن شاید اس امر پر غور نہ کیا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ بجلی کی طلب میں برق رفتار اضافہ بھی ناگزیر ہو گا۔غالباً اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے جامع نیشنل الیکٹرسٹی پالیسی لانے کا اعلان کیا ہے جسے وہ فروری کے آخر میں مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کر دیں گے اور اس حوالہ سے وہ بڑے پرامید ہیں کہ ٹیلی کام پالیسی کی طرح اس میں بھی انقلابی تبدیلی لائیں گے ۔تقسیم کار کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کر دیں گے ، کسی بھی علاقے میں مختلف تقسیم کار کمپنیاں بجلی فراہم کر سکیں گی اور صارفین انٹر نیٹ کے ذریعے اپنی مرضی کی کمپنی سے بجلی حاصل کر سکیں گے بجا کہ اس سے تقسیم کار کمپنیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو گا مقابلے کا رجحان بڑھے گا، صارفین کو سستی بجلی بہم ہو گی اور عملے کا ان سے رویہ بھی لازمی طور پر بہتر ہو گا، تاہم سوال یہ ہے کہ ملک کے کتنے افراد کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے؟ یقیناً جامع پالیسی میں اس کا بھی کوئی بہتر حل موجود ہو گا ،نہیں ہے تو شامل کیا جانا چاہئے ۔جنریشن ٹرانسمیشن اور بجلی کی پیداوار کو لائسنس فری کرنا اس عمل کو بیورو کریسی کی جکڑ بندی سے مخفوظ رکھنے کا احسن عمل ہے ۔متبادل ذرائع پر توجہ دینے کی بات سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ’’ہمیں نیٹ ہائیڈل پراجیکٹ پر کوئی مشترکہ فیصلہ کرنا ہو گا ، پانی کے ذخائر بنانا ہوں گے جو وقت کی اہم ضرورت ہے ، مشترکہ مفادات کونسل کو اس حوالہ سے کردار ادا کرنا چاہئے، سیاسی جماعتوں کو بھی ملکی مفاد کے معاملات پر اتفاق رائے کرنا چاہئے۔

تازہ ترین