• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حدیبیہ کیس، باتیں نہیں، جرم بتائیں، ثبوت لائیں، سپریم کورٹ کی سرزنش، نیب نے وکیل بدل لیا

Todays Print

اسلام آباد (رپورٹ:رانا مسعودحسین)عدالت عظمی نے ’’حدیبیہ پیپرملز ریفرنس دوبارہ کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل‘‘ کی سماعت کے دوران نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر کو ہدایت کی ہے کہ وہ پہلے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے میں تاخیرکی وجوہات پر عدالت کومطمئن کریں کہ اپیل دائر کرنے کے لئے مقررہ وقت کے اندر اندر سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا ہے؟ زائد المیعاد اپیل کی سماعت کیوں کی جائے،اس کے بعد اگر مطمئن ہوئے تو فریقین کو نوٹسز جاری کریں گے۔دوران سماعت فاضل عدالت نے سپیشل پر اسیکیوٹر نیب کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، ملزمان کاجرم بتائیں، ہم صرف بیانات پر بھروسہ نہیں کرسکتے ہیں۔جسٹس مظہر عالم نے نیب کے لاء افسر سے استفسار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں حدیبیہ ریفرنس کا ذکر کہاں ملتا ہے؟جس پر انہوں نے بتایاکہ کچھ افراد کے نام سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہیں،جن کا تعلق حدیبیہ ریفرنس سے ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی ٰنےکہاکہ یہ سب نام تو آپ کے پاس2000ء میں بھی تھے۔انہوں نے استفسار کیاکہ کیا اکائونٹ میں پیسے رکھنا جرم ہے؟فاضل لاء افسر نے کہاکہ نیب قوانین کے مطابق ملزم کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے۔جسٹس مشیر عالم نے فاضل لاء افسر سے استفسار کیا ہے کہ کیا ملزم اسحاق ڈار کے اعترافی بیانات میں موجود حقائق کی تحقیق کی گئی تھی؟لاء افسر نے بتایاکہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اس سے متعلق دستاویزات دی ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ جو نئے ثبوت بتائے جارہے ہیں یہ سب کچھ 2000میں بھی موجود تھا، پھر نیب نئے اور اہم ثبوت کیا لائی ہے جن کی بنیاد پرریفرنس کھولا جائے؟منی ٹریل کے جے آئی ٹی سے پہلے اور بعد کے شواہد پر دلائل پیش کریں ،4 اکائونٹس تھے یا 36 معاملہ مشترک ہے۔قانون کہتا ہے کہ ملزم کا بیان شریک ملزم کے خلاف بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جا سکتا،صرف بیان دینے والے کو گواہ کے طور پر ہی کٹہرے میں لایا جاسکتاہے۔جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، تاخیر سے ریفرنس دائر کرنا عبور کرلیا تو ممکن ہے کہ بات میرٹ پر آجائے۔قانون سب کے لیے ایک ہے،جسٹس قاضی فائز عیسی نے نیب کے لاء افسر کوکہاکہ بینک ملازمین کے بیانات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں،جسٹس مشیر عالم نے کہا ہے کہ آپ کو منی ٹریل کی شناخت کرنا ہوگی اور یہ بھی بتانا ہوگا کہ حدیبیہ پیپر ملز کے بینیفشری کون کون ہیں؟جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کونیب کی اپیل کی سماعت کی تونیب کےسپیشل پراسیکیوٹر عمران الحق نے حدیبیہ کیس سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ میں کی گئی سفارشات پڑھتے ہوئے بتایا کہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ نئے مضبوط شواہد موجود ہیں جن کی بنا پر لاھور ہائی کورٹ کے ریفرنس کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی گئی ہے۔ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے شریف خاندان نے ستمبر 1991 میں منی لانڈرنگ کا آغاز کیا تھا، ابتدائی طور پر سعید احمد اور مختار حسین کے اکائونٹس کھولے گئے تھے ،ملزم اسحاق ڈار کا 164 کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ کیسے منی لانڈرنگ کی گئی تھی۔انہوں نے جعلی اکائونٹس کو اپنے بیان میں تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ جے آئی ٹی نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کی سفارش کی ہے ،منی ٹریل حدیبیہ پیپر ملز سے جڑی ہوئی ہے، اسی لیے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا کہا گیا ہے۔جسٹس مشیرعالم نے استفسار کیا کہ کیا یہ سفارشات عدالتی فیصلے کا حصہ ہیں؟جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ حدیبیہ پیپر ملز کا لفظ فیصلے میں شامل نہیں ہے۔فاضل لاء افسرنے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ اور عدالتی فیصلے میں جن جن افراد کا ذکرہے، وہی لوگ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں بھی ملزم ہیں۔جسٹس مشیرعالم نے ریمارکس دیئے کہ اس تعلق کو کیسے جوڑیں گے؟ جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے استفسار کیاکہ کیا پانامہ پیپرز لیکس کیس کے فیصلے میں عدالت نے جے آئی ٹی سفارشات پر کوئی مخصوص آبزرویشن یا ہدایات جاری کی ہیں؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ یہی شواہد2000میں بھی دستیاب تھے۔فاضل لاء افسر نے کہاکہ ملزم اسحق ڈار کے بیان میں بھی یہی چیزہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےاستفسار کیا کہ اس ریفرنس میں فوجداری نوعیت کا الزام کیاہے؟،یہ سول نہیں فوجداری مقدمہ ہے۔لاء افسر نے کہاکہ مشکوک اکائونٹس سے رقم حدیبیہ ملز کیلئے آئی تھی۔جسٹس قاضی فائز نے کہا پھر تو یہ ٹیکس کا معاملہ بن جاتاہے۔ فوجداری کیس میں پہلے فرد جرم عائدہوتی ہے، ملزم کو یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس پر الزام کیا ہے۔ پراسیکیوشن بتائے کہ ملزمان کے خلاف کیاجرم بنتا ہے؟ نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہوجاتی ہے، ہمیں کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو کچھ آج عدالت کوبتارہے ہیں یہ سب ریکارڈ 2000 میں بھی دستیاب تھا،ملزم اسحاق ڈار کو نکال دیا جائے تو آپ کے پاس نیا کیا ثبوت ہے؟1992 سے 2017 ءآگیا ہے،ابھی بھی ہم اندھیرے میں ہی ہیں کہ دراصل ہوا کیا ہے۔معلوم نہیں ہے، اُس کا بیان اِس کا بیان، یہ سب کیا ہے؟ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں۔پیسے ادھر سے ادھر گئے، ادھر سے ادھر آئے، یہ کہانیاں ہیں، ہمیں آپ فرد جرم بتائیں؟جس پر لاء افسر نے کہاکہ یہ معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ رقم موجود ہونے کا معاملہ ہے،جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ پھر یہ دوالزامات ہوگئے ہیں۔لاء افسر نے کہا کہ بادی النظر میں ایسا ہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ بیس سال پرانا کیس ہے بادی النظر کا لفظ استعمال نہ کریں بلکہ سیدھا موقف اختیار کریں، کیا نیب کو مزید تحقیقات کیلئے پچاس سال کا وقت لگ جائے گا؟جسٹس مشیر عالم نے سوال کیاکہ کیا ملزمان نے عوامی عہدے کا استعمال کرتے ہوئے کوئی فائدہ اٹھایا ہے؟لاء افسر نے بتایاکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کیے گئے تھے۔ اس دوران عام لوگ فارن کرنسی صرف پاکستانی روپے میں تبدیل کرکے نکال سکتے تھے جبکہ ملزمان نے فائدہ اٹھایا ہے۔جسٹس مشیرعالم نے پوچھا کہ حدیبیہ پیپرز ملزکے اکائونٹس میں جس صدیقہ سید کی رقم آئی تھی وہ کس نے نکلوائی تھی؟ملزم اسحاق ڈار نے یا کسی اور نے؟لاء افسر نے کہاکہ کسی نے نکلوائی تھی لیکن چونکہ اکائونٹس اصل نہیں تھے اس لیے صدیقہ سید نے نہیں نکلوائی تھی۔جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ یہی تو نیب نے معلوم کرنا تھا کہ رقم کس نے نکلوائی تھی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ جے آئی ٹی نے کچھ کیا اور نہ ہی نیب نے کچھ کیا ہے،آپ صرف بیانات پڑھ رہے ہیں۔ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ کم ازکم کسی اکائونٹ ہولڈر کے دستخط ہی لے لیتے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ جن کے ناموں کے اکائونٹس کھولے گئے تھے ان کا انکم ٹیکس ریکارڈ ہی نکال لیتے، یہ ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔ جس پر لاء افسر نے کہاکہ اکائونٹس ہولڈرز کو سوالنامہ بھیجاتھا مگر انہوں نے جواب نہیں دیا۔

تازہ ترین