یہ جنوری 1998ء کی ایک سرد شام تھی۔ بلوچستان ہائوس اسلام آباد میں نواب اکبر بگٹی صاحب مجھے طنز بھرے لہجے میں کہہ رہے تھے کہ اس مرتبہ ہم نے پنجاب کے لیڈر نوازشریف پر بھروسہ کیا ہے اور اسکا ساتھ دے رہے ہیں، یاد رکھنا ہم نوازشریف کو نہیں چھوڑیںگے اگر وہ ہمیں لات مار دے تو پھر یہ شکوہ نہ کرنا کہ ہم پنجاب پر تنقید کیوں کرتے ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب وزیراعظم نوازشریف اپنی دو تہائی اکثریت کےبل بوتے پر صدر فاروق لغاری اورچیف جسٹس سجاد علی شاہ سے استعفے دلوا چکے تھے اور اخبارات میں یہ بحث چل رہی تھی کہ اب اگلی باری کس کی ہوگی؟ ان واقعات سے کچھ عرصہ قبل مجھے بھی حکومتی دبائو پرایک اخبار کی ایڈیٹر شپ چھوڑنی پڑی تھی۔ بگٹی صاحب پوچھ رہے تھے کہ آپ نے استعفیٰ کیوں دیا؟ میں نے بتایا کہ میرے اخبار کا چیف ایڈیٹر جیل میں ڈال دیا گیا اور کہا گیا تھا کہ استعفیٰ دو ورنہ یہ شخص جیل میں سڑتا رہے گا۔ بگٹی صاحب نے پوچھا کیا یہ سب نوازشریف خود کراتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میرے معاملے میں سب کچھ سینیٹر سیف الرحمان نے کیا۔ بگٹی صاحب نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ پنجاب کے سیاستدانوں میں قوت برداشت بہت کم ہے جو کچھ یہ ہمارے ساتھ بار بار کرتے ہیں اگر یہ سب ان کے ساتھ بھی ہو تو یہ شیخ مجیب الرحمان بن جائیں گے لیکن آپ ہمارے حوصلے کی داد دیجئے کہ ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا، غدار کہا گیا لیکن ہم شیخ مجیب الرحمان نہیں بنے۔ اس گفتگو کے چند ماہ کے بعد بھارت نے ایٹمی دھماکے کردیئے۔ ان دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کئے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سردار اختر جان مینگل نے صرف اتنا شکوہ کیا کہ وفاقی حکومت نے چاغی میں ایٹمی دھماکے کئے لیکن مجھے اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا نہ کی گئی۔ اختر مینگل کا یہ شکوہ بہت بڑی گستاخی ٹھہرا اور وزیراعظم نوازشریف نے حکم دیا کہ انہیں ہٹا کر جان جمالی کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ بنا دیا جائے۔ اختر مینگل نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا اور جان جمالی وزیراعلیٰ بن گئے۔ اس سیاسی تبدیلی کے فوراً بعد نواب اکبر بگٹی صاحب نے مجھے فون کیا اور انگریزی میں کہا کہ یاد کرو میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہم نوازشریف کو نہیں چھوڑیں گے وہ ہمیں لات مار دے تو دوسری بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ دراصل میں نے اور سردار عطاء اللہ مینگل نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ نوازشریف نے اختر مینگل کو وزیراعلیٰ تسلیم کرکے بلوچستان کے قوم پرستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تو ہم یہ دوستی نہیں توڑیں گے لیکن افسوس کہ نوازشریف نے ہمارے ایک چھوٹے سے شکوے کو غداری قرار دیکر ہماری دوستی کو لات مار دی۔ ہمیں اس کا کوئی افسوس نہیں۔ ہمارا ضمیر مطمئن ہے لیکن جن کے کہنے پر نوازشریف نے ہمیں لات ماری ہے وہ نوازشریف کو لات مارنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔ ایک سال کے بعد جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کو لات ماری اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت اپوزیشن کے کئی رہنمائوں نے فوجی کارروائی کا خیرمقدم کیا کیونکہ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی نہ عدلیہ پر کوئی فوری پی سی او مسلط کیا گیا۔ ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے ایبٹ آباد میں پریس کانفرنس کرکے مشرف کی حمایت کا اعلان کیا اور اپنے بیٹے عمر اصغر خان کو مشرف کی کابینہ میں شامل کرا لیا۔ اے این پی کے صدر اجمل خٹک کے بھی مشرف سے روابط کوئی راز نہ رہے۔ کچھ لوگوں نے گرفتار وزیراعظم نوازشریف کو پھانسی لگانے کا مطالبہ کیا۔ میں نے 20نومبر 1999ء کو اپنے کالم ’’پھانسی بہت ضروری ہے‘‘ میں کہا کہ عوام میں نوازشریف سے بیگانگی تو نظر آتی ہے لیکن کسی نے پھانسی کا مطالبہ نہیں کیا لہٰذا نوازشریف کو نہیں اس نظام کو پھانسی لگائیں جس نے نوازشریف پیدا کیا۔ اس کالم پر بگٹی صاحب نے مجھے شاباش دی اور کہا کہ نوازشریف نے ہمارے ساتھ بھی ظلم کیا لیکن ہم نے مشرف کاخیرمقدم نہیں کیا۔ بگٹی صاحب نے مجھے آخری کال اپنی شہادت سے چند روز قبل کی تھی۔ وہ پہاڑوں میں روپوش تھے اور سیٹلائٹ فون سے کال کرتے تھے۔ اس دن وہ ایک معروف ٹی وی اینکر سے سخت ناراض تھے اور اس کا غصہ مجھ پر اتار رہے تھے۔ کہنے لگے گواہ رہنا ڈیرہ بگٹی میں میرےگھر پر گولیاں اور میزائل برسائے گئے، مذاکرات کے نام پر دھوکہ کیا گیا لیکن میں نے پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی میں شیخ مجیب نہیں بنا۔ کچھ دن بعد بگٹی صاحب شہید ہوگئے۔
9جنوری 2018ء کو بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا۔ اس دن نااہل وزیراعظم نوازشریف اسلام آباد میں میڈیا کو کہہ رہے تھے کہ شیخ مجیب الرحمان محب وطن تھے لیکن انہیں باغی بنا دیا گیا مجھے اتنے زخم نہ دو کہ میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں۔ دوسرے الفاظ میں نوازشریف نے یہ اشارہ دیا کہ وہ شیخ مجیب الرحمان بھی بن سکتے ہیں۔ نوازشریف نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ شیخ مجیب محب وطن تھے۔ شیخ مجیب کے بارے میں پاکستان میں بھی غلط بیانی کی جاتی ہے اور بنگلہ دیش میں بھی غلط بیانی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں انہیں غدار قرار دیکر قوم کے اصل غداروں کے چہرے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بنگلہ دیش میں انہیں پاکستان کا دشمن قرار دیکر حقائق کو جھٹلایا جاتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ جب حسین شہیدسہروردی نے عوامی مسلم لیگ بنائی تو شیخ مجیب اس نئی جماعت میں شامل ہوگئے۔ میرے پاس سہروردی صاحب کے کچھ نایاب اصلی خطوط موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے لیکن جنرل ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لا لگا کر سہروردی صاحب اور شیخ مجیب کو غدار قرار دیدیا۔ شیخ مجیب 1958ء سے 1962ء تک جیل میں رہے۔ 1963ء میں سہروردی انتقال کرگئے تو شیخ مجیب نے عوامی مسلم لیگ میں سے مسلم نکال دیا اور یہ عوامی لیگ بن گئی۔ 1964ء میں شیخ مجیب نے جنرل ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی بطور صدارتی امیدوار حمایت کی اور دوبارہ گرفتار ہوگئے۔ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعہ شکست دی گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب نے اکثریت حاصل کی لیکن انہیں اقتدار منتقل نہ کیاگیا۔ وہ پاکستان توڑنا نہیں چاہتے تھے بلکہ نیشنل عوامی پارٹی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت کرنا چاہتے تھے۔ مسلم لیگی رہنما اور 1970ء کی قومی اسمبلی کے رکن سردار شوکت حیات خان نے اپنی آپ بیتی ’’گم گشتہ قوم‘‘ میں شیخ مجیب کے ساتھ مذاکرات کی تفصیل بیان کی ہے اور لکھا ہے کہ اس نے پاکستان بچانے کی بہت کوشش کی لیکن فوجی آپریشن کے بعد معاملات اس کے ہاتھ میں نہ رہے۔فوجی آپریشن سے ایک رات قبل شیخ مجیب نے سردار شوکت حیات سے کہا ’’شوکت بھائی ہم شاید دوبارہ اس دنیا میں نہ مل سکیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم اگلی دنیا میں اسی طرح اکٹھے ہونگے جس طرح تحریک پاکستان میں اکٹھے تھے‘‘۔
یاد رہے کہ جب پاکستان دولخت ہوا تو شیخ مجیب جیل میں تھے۔ پاکستان ٹوٹنے کی اصل وجہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ہماری شکست تھی۔ پاکستان اکیلے شیخ مجیب نے نہیں بلکہ سب نے مل کر توڑا۔ نوازشریف کا یہ کہنا تو درست ہے کہ شیخ مجیب محب وطن تھے لیکن انہیں اپنے آپ کو شیخ مجیب سے ملانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ شیخ مجیب فوجی حکومتوں کے دور میں جیلیں کاٹتے رہے لیکن کبھی کوئی سمجھوتہ کر کے جیل سے باہر نہیں آئے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر تلہ سازش کیس میں ان کے خلاف ثبوت موجود تھے۔ جب پاکستان کی فوجی حکومت شیخ مجیب کوعدالت میں بھارتی ایجنٹ ثابت کرنے پر تلی بیٹھی تھی تب بھی شیخ مجیب نے عدالتوں کے خلاف بیان بازی نہیں کی۔ عوامی لیگ نے تمام اپوزیشن جماعتوںکو اپنے ساتھ ملا کر تحریک چلائی اور فوجی حکومت شیخ مجیب کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ شیخ مجیب کی تمام جدوجہد اپوزیشن میں تھی نوازشریف کی جماعت حکومت میں رہ کر عدالتوں کو للکار رہی ہے۔ آج نواب اکبر بگٹی صاحب زندہ ہوتے تو مجھے اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں یہ ضرور پوچھتے کہ پنجاب والے عدالتوں اور فوج کو جو مرضی کہیں کوئی نہیں پوچھتا لیکن ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام۔