• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کاجلسہ ،ایک لاکھ دکانیں،5 سے6ارب روپے کا کاروبارمتاثر

Todays Print

لاہور (نمائندہ جنگ) اپوزیشن کے احتجاجی جلسہ کی وجہ سےگزشتہ روزمال روڈ سے ملحقہ مارکیٹوں جن میں بیڈن روڈ، ہال روڈ،لنک میکلوڈ روڈ، نیلا گنبد، نئی اور پرانی انار کلی، اور دیگرمارکیٹیں بند رہیں جبکہ دیگر مارکیٹوں میں کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔ مارکیٹوں میں ضروریات زندگی کے استعمال کی لگ بھگ تمام اشیا کی خریداری نہ ہونے کے برابر تھی۔گزشتہ روز دوپہر کے قریب لنک میکلوڈ روڈ پر مارکیٹ کھولنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن سیکیوریٹی ایشو پر مارکیٹ مین دوکانیں بند کردیں گئیں آل پاکستان انجمن تاجران کے سیکرٹری جنرل نعیم میرنے بتایا کہ جو مارکیٹیں متائر ہوئیں ان میں 80 ہزار سے ایک لاکھ دکانیں، تجارتی ادار ے اور دوسرے شامل ہیں جہاں روزانہ پانچ سے چھ ارب روپے کا کاروبار ہوتاہے جبکہ گزشتہ ایک سال کے دوران مال روڈ اور اس سے ملحقہ مارکیٹوں میں دھرنوں، مظاہروں اور جلوسوں کے نتیجہ میں چالیس سے پچاس فیصد تک کاروبار مال روڈ سے دوسرے علاقوں کو منتقل ہوگیا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے توہین عدالت کا تاثر گہرا ہوا ہے جبکہ عدالتوں نے جن فیصلوں پرعملدرآمد کروانا ہوتا ہے اس پر عملدرآمد کرالیتی ہیں۔ ان مارکیٹوں کے دکانداروں کے سروے کے مطابق انہیں جب بھی جلسوں جلوسوں کاسامنا کرناپڑتا ہے انہیں دکانیں بند کرنےسے دکانوں کا کرایہ، ملازمین کی تنخواہیں اور فکسڈ چارجز تو ادا کرنا پڑتے ہیں لیکن آمدنی تو نہیں ہوتی جس کےنتیجہ میں ان کی آمدنی کم اور الٹا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ دکانداروں کا کہنا تھا کہ ہر دکان پر دو سے تین ملازمین کام کرتے ہیں جنہیں دکان بند ہونے سے چھٹی مل جاتی ہے لیکن ان کی تنخواہ کابوجھ دکاندار وں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دکانداروں نے بتایا کہ جلسے، جلسوسوں اور دھرنوں سے ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ شاپنگ کے لئے آنے والوں نے خریداری کامقام تبدیل کرلیا ہے پہلے وہ مال روڈ سے شاپنگ کرتے تھےاب وہ گلبرگ یا کسی دوسری مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔ دکانداروں نے مزید بتایا کہ آٹھ سے دس ہزار افراد ایسے بھی ہیں جو دیہاڑی داری کی بنیاد پر چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں سے تین سے پانچ سو روپے کماتے ہیں ان کے گزشتہ روز چولہے بند رہے۔ علاوہ ازیں ان مارکیٹوں میں گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی پارکنگ کی آمدنی بھی نہ ہونے کے برابر رہی۔ ان مارکیٹوں میں مختلف مساجد کے منتظمین نے بتایا کہ اپوزیشن کی سیاسی سرگرمی کے نتیجہ میں نمازیوں کی تعداد ساٹھ سے ستر فیصد کم رہی کیونکہ خوف کے نتیجہ میں کاروباری اداروں میں حاضری بھی کم رہی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت کی 31مارکیٹوں کے عہدیداروں نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مال روڈ پر آئے دن کے مظاہروں، دھرنوں اور ہڑتالوں میں ان کا کاروبار تباہ ہوکر رہ گیا۔ ان اکتیس مارکیٹوں میں بعض میں آٹھ سے دس ایسوسی ایشنوں پر مشتمل بورڈبھی شامل ہیں جس سے تاجرایسوسی ایشنوں کی تعداد 100 کے لگ بھگ بتائی گئی ہے ۔ تاجروں نےبتایا ہے کہ ہائیکورٹ نے تاجر برادری کی درخواست پر مال روڈ پر ہر قسم کے جلسہ، جلوس، مظاہروں اور دھرنوں پر 20 نومبر 2011 سے پابندی عائد کر رکھی ہے اور مال روڈ کو ریڈ زون قرار دے رکھا ہے۔ لاہور کی 31 مارکیٹوں سے تعلق رکھنے والے تاجر دھرنے کی سیاست کو نامنظور کرتے ہیں اور وہ کاروبار کوتباہ کرنے اور خاندانوں کے معاشی قتل کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ انہوں نے چیف جسٹس ہائی کورٹ لاہور سے پرزور اپیل کی کہ لاہور کی تمام مارکیٹوں خصوصاً مال روڈ کے تاجروں کوتحفظ دیا جائے اور ان کا کاروبار تباہ ہونے سے بچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے دینے اور انتشار پیدا کرکے امن و امان خراب کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے کیونکہ مظاہروں، جلسوں اور دھرنوں میں سماج دشمن توڑ پھو ڑ اور لوٹ مار کی تاک میں رہتےہیں۔ عام شہری اور تاجر پریشان ہیں ۔ ہمارے جان و مال کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائےجبکہ سی پیک کے دشمنوں، ملکی معیشت کو تباہ کے ذمہ داروں اور امن و امان تباہ کرنے والوں کو شہر کا امن خراب کرنے سے سختی سے روکا جائے۔ اکنامک رپورٹر کے مطابق آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی سیکرٹری جنرل نعیم میر نے اگر عدالتیں اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کی سکت نہیں رکھتیں تو ایسے فیصلے دیتی کیوں ہیں، انہوں کہا کہ عدالت نے 2011 میں ایک فیصلے کے ذریعے مال روڈ پر جلسے اور جلوسوں پر پابندی عائد کی ، ہم گزشتہ 6 سالوں سے فیصلے کے اوراق اٹھائے گھوم رہے ہیں لیکن انصاف نہیں مل رہا، آئین میں جائز کاروبار کرنے اس کی روانی اور تحفظ کی زمہ دار ریاست ہے اور ہمارے اس بنیادی حق کی محافظ عدالتیں لیکن عدالتوں سمیت تمام ریاستی ادارے ہمیں تحفظ دینے میں ناکام ہوگئے ہیں ، ہمارا عدالتی نظام فرسودہ ہے ، عدالتیں یا تو مقدمات کے فیصلے ھی نہیں کرپاتیں اور جو فیصلے کرتی بھی ہیں تو ان پر عملدرآمد نہیں کروا پاتیں انہوں نے کہا کہ آج بھی ہماری عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرتی ہیں اور ہمارے جج تو بہت بولتے ہیں لیکن ان کے فیصلے گونگے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر کے تاجروں نے عدلیہ بحالی تحریک میں تاریخی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں جج تو بحال ہوگئے لیکن عدل بے حال ہی رہا ۔ انہوں نے کہا کہ تاجران مال روڈ کو یا تو مال روڈ پر اپنے کاروبار کو خیرآباد کہہ کر کہیں اور شفٹ کرلینا چاہئے نہیں تو اگلی تین نسلوں تک انتظار کریں کہ شاید عدالتیں اتنی طاقتور ہو جائیں کہ اپنے فیصلے منوا سکیں ۔

تازہ ترین