• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ غمگین اندوہ پوری اور مایوس خیالی کل شام دونوں اکٹھے میری طرف آگئے، صبح دفتر جاتے ہوئے کالی بلی نے دوبار میرا رستہ جو کاٹا تھا۔ دونوں نے اتنے غمگین انداز میں مجھ سے معانقہ کیا جیسے خدانخواستہ مجھے کسی دوست کے حوالے سے بری خبر سنانے یا تعزیت کرنے آئے ہیں۔ میں نے چائے کا آرڈر دیا، تو مایوس خیالی نے منع کردیا اور کہا میں نے سوشل میڈیا پر پڑھا تھا کہ چائے کی پتی ایمونیم سے تیار کی جارہی ہے، میں نے انہیں چاکلیٹ پیش کی تو بولے سوشل میڈیا پر یہ چاکلیٹ بنتے دکھایاگیا تھا جس کے مطابق زندہ گھوڑے، زندہ سور اور زندہ بھینسے ایک بہت بڑی مشین میں پھینک دئیے جاتے ہیں اور پھر وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ایک دوسری مشین میں چلے جاتے ہیں، آخر میں ایک محلول ان میں ملایا جاتا ہے اور بالکل آخری ا سٹیج پر یہ چاکلیٹ کی صورت میں تیار ہو کر سامنے آتے ہیں اور پھر ان کی خوبصورت پیکنگ کی جاتی ہے۔ میں نے انہیں سوفٹ ڈرنک کی آفر کی اور انہوں نے اس ڈرنک کی تیاری کی جو تفصیلات بتائیں اس کے بعد میں نے انہیں واش روم کا رستہ دکھایا اور تلقین کی کہ مکمل تسلی کے بعد وہاں جائیں اور کسی بھی چیز کا استعمال اس صورت میں بالکل نہ کریں اگر سوشل میڈیا نے اس کے مضمرات کے بارے میں آپ کو اطلاع نہ دی ہو۔
اتنی دیر میں ہمسایوں کی طرف سے بریانی آئی تو اہلیہ نے وہ اندر میرے پاس بیٹھے مہمانوں کے لئے بھیج دی۔میں نے غمگین اور مایوس سے کہا’’نوش فرمائیں‘‘ ان دونوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا ’’آپ کو علم نہیں آپ جو بھی کھاتے ہیں، وہ نہیں ہوتا جو آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں، یہ پھل، یہ سبزیاں، یہ بسکٹ، یہ ڈرائی فروٹ، یہ چاول، یہ آٹا یہ سب کچھ ربڑ، پلاسٹک، تانبے اور لوہے وغیرہ سے بنا ہوتا ہے۔ آپ بےشک سوشل میڈیا پر جاکر چیک کرلیں‘‘ میں نے بمشکل اپنی ہنسی روکی اور بریانی کی پلیٹ اپنی طرف سرکا کر لذت کام و دہن میں مشغول ہوگیا۔ یہ دونوں دوست سخت پریشانی کی حالت میں مجھے دیکھتے رہے، بریانی کی لذت میں ان کی اس پریشانی کی لذت نے مزید اضافہ کردیا۔
اس دوران غمگین اندوہ پوری نے مجھے مخاطب کیا اور کہا’’بہت دیر سے کوئی پریشان کن خبر نہیں سنی، آپ ذرا ٹی وی آن کریں‘‘غمگین کی تائید مایوس نے بھی کی، چنانچہ میں نے ان کی پسند کا چینل آن کردیا جہاں خبرنامے میں سارے ملک میں ہونے والے جرائم کی تفصیلات بیان کی جارہی تھیں، متاثرہ خاندان کی عورتوں کی چیخیں سنائی جارہی تھیں۔ سیاستدانوں پر کھربوں روپے کی کرپشن کی خصوصی رپورٹ پیش کی جارہی تھی۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ بلوچستان میں عنقریب خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے، ایک خبر بلاول ہائوس کے بارے میں تھی جس کے مطابق عنقریب وہاں ریڈ ہونے والی ہے اور وہاں موجود سب لوگ گرفتار ہوجائیں گے اور یہ کہ سمندر کی سطح دن بدن بلندہوتی جارہی ہیں ، چنانچہ اس ہفتے کراچی شہر اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ آنے والے سات دنوں میں خوفناک زلزلوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے، جس کی زد میں اسلام آباد اور لاہور آکر تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ان خبروں کے دوران غمگین اندوہ پوری کے چہرے سے غم کی بجائے خوشی پھوٹ رہی تھی اور مایوس خیالی کا چہرہ مایوسی کی تصویر کی بجائے رخ روشن کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
تاہم یہاں تک پہنچتے پہنچتے میرا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تھا، میں نے ٹی وی آف کردیا اور انہیں مخاطب کرکے کہا ’’امید ہے ان خبروں سے آپ دونوں کی روحانی تسکین ہوگئی ہوگی؟‘‘۔ مایوس خیالی نے کہا’’سوشل میڈیا ا ور ٹی وی چینلز کے بیان کردہ ان حقائق کے بعد اس ملک کی سلامتی کی کوئی امید باقی رہ جاتی ہے‘‘۔ غمگین اندوہ پوری نے مایوس خیالی کی تائید میں نہ صرف سر ہلایا بلکہ مجھے مخاطب کرکے کہا’’آپ تو ان سب باتوں کو بکواس سمجھتے ہیں، مگر یاد رکھیں یہ سب کچھ حقیقت ہے، میرے اور مایوس خیالی دونوں کے پاس کینیڈین شہریت ہے، ہم دونوں کے بچے وہاں سیٹل ہیں، اب ہم نے بھی یہ ملک چھوڑنے کا ارادہ کرلیا ہے جہاں پلاسٹک کے چاول، تانبے کے پھل اور لوہے کی ریوڑیاں کھانا پڑتی ہیں، جہاں پر ایک گھنٹے میں کھربوں کی کرپشن ہوتی ہے، آپ میری باتوں پر مسکرارہے ہیں، ابھی اپنا موبائل آن کریں ا ور سوشل میڈیا پر ان حقائق کی ابھی تصدیق کرلیں‘‘۔
اس بار میں نےجان بوجھ کر ایک زور دار قہقہہ لگایا کہ مجھے علم تھا کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بھی ان دونوں کے لئے جان لیوا ہوتی ہے اور یوں قہقہے کا زخم تو یہ بالکل برداشت نہیں کرسکتے۔ قہقہے کے بعد میں نے ان دونوں کے چہروں پر نگاہ ڈالی تو وہ فق ہورہے تھے اور ان کی سانسیں تیز تیر چلنا شروع ہوگئی تھیں۔ میں نے ان کیلئے پانی منگوایا اور زبردستی پلایا، زبردستی کی وجہ یہ تھی کہ انہیں یقین تھا کہ ہم جو پانی پیتے ہیں اس میں دشمن نے زہرملا دیا ہوا ہے۔ انہوں نے باامر مجبوری پانی پی تو لیا جو وہ دن میں کتنی بار باامر مجبوری پیتے ہیں، مگر وہ سہم گئے تھے۔
حالانکہ مجھے یقین ہے کہ اگر اس طرح کے لوگوں کو زہریلا پانی پلا بھی دیا جائے تو انہیں کچھ نہیں ہوگا کیونکہ افراد اور قوموں کے لئے بدگمانی اور مایوسی سے زیادہ زہریلا زہر آج تک ایجاد ہی نہیں ہوا۔

تازہ ترین