• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچ کا بول بالا
عجب دور ہے؟ سچے، جھوٹے دونوں کی آزمائش ہے۔ کسی کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ دو میں سے کسی ایک کو حتمی سچا یا جھوٹا قرار دے سکے البتہ اس ہستی بے مثال جل و علا کو معلوم ہے کہ کون سچا ہے کون جھوٹا، یہ جو لوگوں میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے اور سوچتے اندازے لگاتے رہتے ہیں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، انصاف کی کرسی پر بیٹھنے، بٹھانے والوں میں سے کس کو خدا زیادہ پوچھے گا اور کسے کم یہ بھی کسی کو معلوم نہیں، ہاں ’’دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ بہت اچھا ہے کہ اس طرح کم از کم انسان پیشگی پریشانی سے بچ جاتا ہے۔ ایک جھونپڑی سے میں نے صبح صبح یہ صدا آتے سنی ’’میڈا سونہڑا رب سچا‘‘ جج ہوں یا حاکم وقت، بات ظاہر کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ شرعی حکم بھی یہی ہے کہ قاضی ظاہر پر فیصلہ دے کیونکہ دل میں کس نے جھانک کر دیکھا؟ کہ اندر کیا ہے، بس اتنا معلوم ہے کہ ؎
دل دریا سمندروں ڈونگھے ، کون دلاں دیاں جانے ہُو
وچے بیڑے وچے جھیڑے ،وچے ونجھ مہانے ہُو
یہ بھی بڑی دلچسپ بات ہے جھوٹا ہو یا سچا دونوں کو اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا پتہ ہوتا ہے مگر وہ دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ اس کے مَن میں کیا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ حتمی فیصلے کا قیامت تک انتظار کیا جائے، آزمائش بالعموم دل کے اچھوں پر آتی ہے، اس میں سے صرف صبر اور شکر کے ساتھ گزرا جا سکتا ہے، دوسروں کے عیب تلاش کرنا اور اپنے عیبوں پر نظر نہ ڈالنا مغالطہ ہے، انصاف کی کرسی ہو یا اقتدار کی، دونوں کرسیاں کانٹوں بھری ہیں۔ حضرت عمر ؓ چلتے ہوئے تنکا اٹھا کر، چڑیا کا پَر دیکھ کر فرمایا کرتے کاش میں یہ تنکا یہ پَر ہوتا میرا حساب تو نہ ہوتا اور پھر وہ گریہ و زاری میں مصروف ہو جاتے حالانکہ اسلام لانے سے پہلے کسی نے کبھی ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھا تھا۔ ہر حال میں معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہی ذات ہے کہ
عدل کریں تے تھرتھر کمن اچیاں شاناں والے
کرم کریں تے بخشے جاون میں جیہے منہ کالے
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
لودھراں کی جیت کیا کہہ رہی ہے؟
لودھراں کی جیت نواز شریف کو الگ اعتماد دے رہی ہے:تجزیہ کار، شاہزیب خانزادہ :عدالتی فیصلے کا وقت قریب لیکن نواز شریف کے لہجے کی تلخی میں اضافہ، سابق سینیٹ چیئرمین وسیم سجاد:پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر سکتی ہے۔
عمران خان اگر ن لیگ کی شکست میں اپنی جیت تلاش کرتے ہیں تو یہ شوق عبث ہے کیونکہ قرائن اور آثار بتا رہے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں رہا۔ لودھراں کی سیٹ کھو دینا غیب کی خبر ہے۔ غائب ہونے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ مریم نے کچھ غلط نہیں کہا کہ نواز شریف دلوں کے بادشاہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے گمان سان میں نہ تھا کہ اسے اس نشست پر شکست ہو گی۔ اس طرح مزید غلط فہمیاں 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے بھی دور ہونے والی ہیں۔ مجھے کیوں نکالا کا جواب ہے اس لئے کہ دلوں میں رہتا ہوں، اب دل سے تو نکالنا ممکن نہیں اس لئے نواز شریف کا سکہ آج بھی چلتا ہے اور شاید آئندہ انتخابات میں زیادہ چلے، ہمارے عوام کی ایک خوبی ہے کہ وہ شرافت اور حیاداری کو دیکھتے ہیں۔ تحریک ِ انصاف کی آمد سے سیاسی لہجوں میں تبدیلی آئی ہے اور یہ اوچھی تبدیلی ہے۔ اگر ن لیگ والے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے جلسوں سے میوزک کا تڑکا نکال دیں تو اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ سیاست میں سنجیدگی کا ہونا اور ڈھول باجے کا نہ ہونا ضروری ہے۔ ہمارا سیاسی کلچر شریفانہ ہے، اس کی داغ بیل بھی نواز شریف نے رکھی۔ اگر ملکی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو مسلم لیگ ن کو کام نہیں کرنے دیا جاتا رہا، کوئی ہے جو ہمارے مسائل برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اسے اپنے کام کے مہرے مل جاتے ہیں۔ ایک سواری کے پاس ٹکٹ ہو اور بس کا کنڈیکٹر اسے اتار دے تو وہ واویلا کرے گا کہ دیکھو یہ میرا ٹکٹ ہے، مجھے کیوں اتارا؟ بہت کچھ بدلنے کو ہے ن لیگ مزید مستحکم ہو گئی، دراڑیں بھی خوابوں میں ہی نظر آئیں۔ اگرچوہدری نثار بھی ہنوز پکے ہیں تو سمجھیں کہ اس قافلے میں کچا کوئی بھی نہیں، ایک شعر غالبؔ کا برائے نون لیگ ؎
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکالا ان کا پاسباں اپنا
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
طالبان دانستہ نادانستہ امریکی مفاد کے حق میں
طالبان نے کہا ہے:امریکہ 100سال بھی جنگ نہیں جیت سکتا۔ امریکہ بھی یہی چاہتا ہے کہ یہ جنگ کبھی ختم نہ ہو تاکہ وہ اس خطے پر اپنے بال بکھیرے آکٹوپس کی طرح موجود رہے۔ یہاں اپنا ایک گروپ بنائے رکھے اور اس خطے میں کسی کو اٹھنے آگے بڑھنے کی فرصت نہ دے۔ اگر سچ پوچھیں تو ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان اور دیگر شمالی ریاستیں جہاں ہیں وہیں کھڑی ہیں، بہتری موجود ہے آتی نہیں۔ خطہ ہرچند کہ مردہ نہیں، پر زندہ بھی نہیں۔ بڑی چالاکی سے امریکہ نے ہمارا بازوئے جہاد اپنے ہدف کے حصول کے لئے استعمال کر کے خود کو دنیا کی واحد سپر طاقت بنا لیا۔ اب اسے دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کی دنیا پر بلا شرکت غیرے اجارہ داری کو کوئی گزند نہ پہنچے اور اس کے لئے وہ چین کا محاصرہ، روس کو اٹھنے نہ دینے کا اپنا آرڈر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ طالبان ہی سے وہ دہشت گردی کا کام بھی لے گا اور شومئی قسمت کہ نہ صرف طالبان بلکہ اس کی دیگر شاخیں اور ایک نیا فتنہ داعش کے روپ میں بھی متعارف کرا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اگر دہشت گردی سرے سے موجود ہی نہ ہوتی تو آج پاکستان کہاں پہنچ گیا ہوتا، مگر ہم کو بھی گل محمد بنا دیا، کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد، ہم نے روز اول سے امریکہ کی تقلید میں بہت کچھ کھویا، اب اگرچہ بیدار ہو چکے ہیں مگر دیر اتنی کہ نقصانات پورا کرنے سے فرصت کہاں۔ طالبان نے اگر 100 سال کا ہدف دیا ہے یا چیلنج کیا ہے تو یہ بھی امریکہ کے مفاد میں ہے اور طالبان کو اس چال کی خبر نہیں۔ آج کے دور میں لڑنا اتنا اہم نہیں جتنا دشمن کی چال کو سمجھنا۔ کشمیر کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہوتا اس کی بھی گہرائی میں جا کر تحقیق کی جائے تو انکل سام ہی برآمد ہو گا۔ دانشمندی بھارت بھی نہیں دکھا رہا۔ اقتدار کی خاطر بھارت کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جال کچھ اس انداز سے پھینکا گیا ہے کہ پورا خطہ لپیٹ میں ہے اور ہمارے بڑے منصوبے محفوظ نہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
تمام منے بھائی مصروف ہیں!
٭ فواد چوہدری:ن لیگ میں بھی متحدہ کی طرح دھڑے بن جائیں گے۔
منا بھائی ! لگے رہو۔
٭ وکلاء کا تمسخر، لاہور ہائیکورٹ نے نجی ٹی وی کے اینکر، مالک اور پیمرا سے 23فروری کو جواب طلب کرلیا۔
آج کے نشر ہونے والے ڈرامے کا نام ہے: اینکر، مالک اور پیمرا۔ اچھا ہو گا اس کھیل کا لاہور ہائیکورٹ ڈراپ سین دکھا دے تاکہ ناظرین کا تجسس ختم ہو۔

تازہ ترین