• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں مشاعرے لوٹ آئے
حاضرینِ محفل

کراچی کبھی علمی و ادبی سرگرمیوں اورمشاعروں کا مرکز تھا۔روشنیوں کےاس شہر میں راتیں جاگتی تھیں ،چائے خانے پوپھٹے تک کھلے رہتے تھے ، گلیوں اور محلوں میں چوپالیں سجتی تھیںاور کوئی ہفتہ ، مہینہ اور سال کسی علمی نشست، کسی ادبی تقریب یا کسی یادگار مشاعرے سے خالی نہیں جاتا تھا۔پھر یہ ہوا کہ اس شہر کو خود اپنی ہی نظر لگ گئی۔روشنیاں گُل ہونے لگیں۔شام ہوتے ہی دُکانوں اور چائے خانوں کے شٹر گرنے لگے۔گلی محلوں میں سناٹوں کی گونج ہوئی اور علمی و ادبی نشستوں کے ساتھ ساتھ مشاعروں کی روایت بھی اُٹھتی چلی گئی۔

قصے کہانیوں میں پائے جانے والے پرندے ققنس کی طرح شہر بھی کبھی کبھی اپنی ہی راکھ سے ایک نیا جنم لیتے ہیں۔بالکل اسی طرح کراچی نے بھی کروٹ بدلی ہےاور اپنی کھوئی ہوئی ادبی وثقافتی سرگرمیوں ، علمی مباحثوں اور یادگارمشاعروں کی طرف لوٹ آیا ہے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکاہے۔سامنے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹ(ناپا) میں رونق لگی ہے۔ میوزک کانفرنس کے نام سے موسیقی کی محفلیں الگ سج رہی ہیں۔لٹریچر فیسٹیول ہو رہے ہیں۔ایسے میں حکومتِ سندھ کے محکمہء ثقافت نے بھی اپنے شاعرودانش ور وزیرسید سردارعلی شاہ کی قیادت میں سندھ دھرتی کے ثقافتی رنگوں کو کچھ اور اُجاگر کرکے کراچی کے نیشنل میوزیم کو ایک ایسے نگارخانے میں تبدیل کر دیا ہےجہاں اس دھرتی کے خمیر میں پائی جانے والی رواداری، تحمل، برداشت،وسیع النظری ووسیع القبی، روشن خیالی، کشف و جذب اور محبت و اُنسیت کے جتنے رنگ ہیں، دیکھے جاسکتے ہیں۔

کراچی میں مشاعرے لوٹ آئے

محکمہء ثقافت،حکومت سندھ نے آرٹس کونسل آف پاکستان کے اشتراک سےبھی کئی ایک یادگارایونٹس کیے ہیں۔اسی سلسلے کا ایک اور یادگارپروگرام ’عالمی اُردو مشاعرہ‘ تھا جو اتوار 13 مئی کو نیشنل میوزیم آف پاکستان میں منعقدہوا۔کشورناہید کی صدارت میں ہونے والے اس مشاعرے میں پاکستان کے نامورشاعروں کے ساتھ ساتھ بھارت، امریکا، کینیڈااوردبئی سے آنے والے مہمان شعراء نے شرکت کی اور حاضرین کو اپنے بہترین کلام سے لطف اندوز کیا۔

عنبرین حسیب عنبرنے نظامت کے فرائض سلیقے سے انجام دیے اور آغاز ہی میں مشاعرے کی جو فضا قائم کی بعد میں آنے والے شاعروں نے نہ صرف اس فضا کو قائم رکھابلکہ جیسے جیسے رات بھیگتی چلی گئی، مشاعرے کا رنگ بھی جمتا چلا گیا۔کینیڈا سے آنے والے شاعراحمدسلمان نے مشاعرہ لوٹ لیا۔بھارت سے آئے ہوئے معروف شاعرخوشبیر سنگھ شاد اورفرحت احساس کی غزلوں کا سکہ بھی خوب چلااور امریکا سے آنے والی ہمارے ہی شہر کی شاعرہ عشرت آفرین کی فکرانگیز نظموں نے بھی مشاعرے کو ایک نئے لہجے سے روشناس کرایا۔دبئی سے آنے والی ثروت زہرا نے بھی خوب پڑھا۔انورشعور، پیرزادہ قاسم،صابرظفر،شاہدہ حسن، امدادحسینی، عباس تابش،قمر رضاشہزاد، احمد نوید، اجمل سراج، رنجیت سنگھ چوہان، رحمان فارس، ناصرہ زبیری، حارث خلیق، نذیر تبسم، عقیل عباس جعفری اور اے ایچ خانزادہ نے بھی حسبِ معمول خوب داد سمیٹی۔اشفاق حسین نے اپنی مقبول نظم ’زومنگ‘ سنائی تو مشاعرے میں شریک ہر شخص کی آنکھوں کے سامنے اُس کی دُنیاپھیلتی اور سمٹتی چلی گئی۔

دیکھوں جو آسماں سے تو اتنی بڑی زمیں

اتنی بڑی زمین پہ چھوٹا سا ایک شہر

چھوٹے سے ایک شہر میں سڑکوں کا ایک جال

سڑکوں کے ایک جال میں ویران سی گلی

ویراں گلی کے موڑ پہ تنہا سا اک شجر

تنہا شجر کے سائے میں چھوٹا سا اک مکاں

چھوٹے سے اک مکان میں کچی زمیں کا صحن

کچی زمیں کے صحن میں کھلتا ہوا گلاب

کھلتے ہوئے گلاب میں مہکا ہوا بدن

مہکے ہوئے بدن میں سمندر سا ایک دل

اِس دل کی وسعتوں میں کہیں کھو گیا ہوں میں

یوں ہے کہ اس زمیں سے بڑا ہو گیا ہوں میں

آخرمیں صدرِمشاعرہ کشور ناہید نے بلوچستان میں کوئلہ کی کان میں جھلس کر ہلاک ہونے والے مزدوروں کی یاد میں لکھے جانے والی نظم سنا کر سب کو رُلا دیا۔انہوں نے اپنی مقبول نظم ’یہ ہم گناہگارعورتیں ہیں‘ بھی سنائی جس کے ساتھ ہی یہ یادگارمشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا۔وزیرثقافت سید سردارشاہ، آرٹس کونسل آف پاکستان کے صدرمحمد احمد شاہ، سیکرٹری ثقافت اکبر لغاری، مزدور رہنما حبیب جنیدی، تاج حیدرسمیت بہت سی اہم شخصیات شروع سے لے کر اختتام تک مشاعرے میں شریک رہے ۔آخر میں سیدسردار شاہ نے شاعروں کو اجرک کے تحفے پیش کیے۔

تازہ ترین