• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غلام مصطفے جمالی، گڑھی خیرو

 چند سال قبل صوبے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کے نتیجے میں امن و امان کی جو فضا بحال ہوئی تھی، وہ دوبارہ مکدر ہوگئی ہے، جس کا ثبوت حال ہی میں گڑھی خیرو میں ہونے والے قبائلی تصادم کا واقعہ ہے جس میں کئی قیمتی زندگیاں بھینٹ چڑھ گئیں۔2014 سےقبل تک سندھ کا پور ا خطہ بدامنی کی لپیٹ میں تھا۔ کراچی سے کشمور اور اوباڑو تک جرائم پیشہ و سماج دشمن عناصر کی آزادانہ کارروائیوں کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔ لوگ اپنے گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں تھے۔ بڑے شہروں میں دہشت گردی، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ تھی تو سندھ کے دیہی علاقوں میں اغوابرائے تاوان ، راہ زنی لوٹ مار، قبائلی تصادم کی وارداتیں عام تھیں جن کی وجہ سے پورا سندھ، فلسطین اور بیروت کا منظر پیش کررہا تھا۔لیکن 2014ء میںپورے ملک میں امن و امان کے قیام اوردہشت گردی و ملک دشمن عناصر کے خاتمے کے لیے ، آپریشن ضرب عضب شروع ہوا۔ کراچی سمیت پورے صوبے میں امن و امان کی بحالی ، دہشت گردی، چوری و ڈکیتی کی وارداتوں کے خاتمے کے لیے،نیشنل ایکشن پلان کے تحت ،پولیس ، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کئے گئے مشترکہ آپریشنز کے بعدصورت حال بہتر ہوگئی تھی، جس کے بعد عوام نے سکھ و چین کا سانس لیا ۔

لیکن یہ امن و امان کا قیام عارضی ثابت ہوا، گزشتہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد نگراں حکومت کے دورمیں، صوبے میں دوبارہ بدامنی کا دور دورہ ہوا اور عام انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کے یر سر اقتدار آنے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کو ایک طرف رکھ دیا گیا،جب کہ پولیس اور رینجرز کو اس حوالے سے مزیدکوئی احکامات نہیں دیئے گئے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اگرکراچی سمیت صوبے میں امن امان کی صوت حال کا جائزہ لیا جائے تو اسٹریٹ کرائمز سے لے کر اغوا، قتل و غارت گری، ڈکیتی کی وارداتوں اور قبائل کے درمیان خونیں تصادم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے ، جس میں اب تک درجنوں ہلاکتیں ہوچکی ہیںاور صوبے کے عوام میں عدم تحفظ کا احساس شدیدتر ہوگیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ حکومت امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی بجائے سارا ملبہ سابقہ نگراں حکومت پر ڈال کر اپنی آئینی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگئی ہے۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے والےسماجی و سیاسی حلقوں کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ صوبے میں لاقانونیت اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی بنیادی وجہ علاقے میں موجود غیر قانونی اسلحہ کی بھاری تعداد میں موجودگی ہے، جس کی وجہ سے روزانہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ پر دہشت گردی یا قبائلی تصادم کی صورت میں ایسے ہولناک واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں عوام کو بھاری جانی و مالی نقصان بھگتنا پڑتا ہے۔

قبائلی تصادم کاایسا ہی ایک ہولناک واقعہ حال ہی ضلع جیکب آباد کی تحصیل،، گڑھی خیرد میں تھانہ محمد پور کی حدود گوٹھ متارو جکھرانی میں پیش آیا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق پسند کی شادی کے معاملے پر جکھرانی قبیلے کے دو گروپوں سیوانی اور سنانی برادری کےافراد کے درمیان ہونے والے چھوٹے سے معاملے نے خونی تصادم کی صورت اختیار کرلی، جس میں دونوں فریقین کی جانب سے جدید اسلحہ کا استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے 5افرادہلاک جب کہ دو خواتین سمیت 3 افرد زخمی ہوگئے۔جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پسند کی شادی کرنے کی پاداش میں سیوانی گروپ کےمسلح افراد نے سنانی برادری کےگھر پر حملہ کرکے نادر سنانی پر جدید اسلحے سے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔سنانی برادری کی طرف سےجوابی فائرنگ کے نتیجے میں حملہ آور گروہ کا ایک نوجوان زخمی ہوگیا۔ زخمی نوجوان کو لاڑکانہ اسپتال لے جایا جارہا تھا کہ شکارپور کے علاقے ڈرکھن میں مبینہ طور پر سنانی گروپ کے افراد نے کار میں پیچھا کرکے زخمی کو لے جانے والی ایمبولینس پر جدید ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں سیوانی برادری کے کیوڑو، بادل، رحیم بخش اور حبیب اللہ جکھرانی سمیت چار افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے، جب کہ 2 خواتین سمیت تین افراد شدید زخمی ہو گئے جنہیں تشویشناک حالت میں لاڑکانہ اسپتال منتقل کردیا گیا۔اس خونیں واقعے کے بعد علاقے میںصورت حال سخت کشیدہ ہوگئی اورلوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ جیکب آباد اور شکارپور پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر،روایتی طریقہ کار اپناتے ہوئے، واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف کاروائی کے نام پرفریقین کے گھروں میں آگ لگا دی جب کہ واپس جاتے ہوئے ان کے مویشی ساتھ لے گئے متحارب فریقین کا کوئی بھی شخص پولیس کی گرفت میں نہ آسکا۔ملزمان کی عدم گرفتاری کے باعث علاقہ مکینوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ گڑھی خیرو کی سول سوسائٹی کے نمائندوں نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قتل و غارت گری کے اتنے بڑے واقعےکے بعد ملزمان کا گرفتار نہ ہونا پولیس اورقانون کی عمل داری کے لیے سوالیہ نشان ہے اور علاقے میں غیرقانونی ہتھیاروں کی موجودگی متحارب گروپوں کے درمیان دوبار ہ قتل و غارت گری کا باعث بن سکتی ہے۔اس لئے نہ صرف تعلقہ گڑھی خیرو یا ضلع جیکب آباد پر پورے سندھ میں غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیے پولیس اور رینجرز کی جانب سے مشترکہ آپریشن کیا جائے۔صوبے میں آتشیں ہتھیاروں کی بھرمارصوبے میں بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔ سندھ میں دوبارہ امن و امان کے قیام کے لیے اسے اسلحہ فری زون بنایا جائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین