دوسِری نظام کا تضاد اور سیاسی بحران

October 19, 2021

دوسِری نظام (Diarchy)جو برٹش کالونیل انڈیا میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کے تحت نافذ ہوا تھا اور جس کے تحت صوبائی انتظامیہ کو اصل نوآبادیاتی حکمرانوں اور مقامی نمائندہ حصے میں تقسیم کردیا گیا تھا آج بھی بعد از نو آبادیاتی دور میں جاری ہے۔

اس کے بھی دو مراکز ہیں جنہیں عام طور پر سیاسی اور عسکری قیادت کہا جاتا ہے ۔اپنی خصلت میں باہمی طور پر متصادم رہتے ہیں۔ بھلے وہ جنرل ضیا الحق تھے اور ان کے وزیراعظم محمد خان جونیجو یا پھر اب منظور نظر وزیراعظم عمران خان اور ان کے سپہ سالار۔ لگتا ہے کہ مقتدرہ کے دو مراکز میں پھر سے ٹھن گئی ہے۔

جو اس دو سِروں والے یا دو طاقتی مراکز کے حامل سیاسی نظام کی سرشت میں ہے۔ بعد از جنرل ضیا غیر مستحکم سول دورانیے میں چار اسمبلیاں اور دو وزرائے اعظم اپنی مدت پوری کیے بغیر گھر سدھارے کہ اس وقت ایک تین سِری ٹرائیکا کا نظام تھا جس کا توازن آٹھویں ترمیم کی بدولت بذریعہ صدر آرمی چیف کے حق میں تھا، صدر مملکت حکومت اور قومی اسمبلی سمیت تمام منتخب اداروں کو برخاست کرسکتا تھا۔

جب آٹھویں ترمیم ختم ہوئی تو پاکستان واپس فوجی بغاوت کے سلسلوں کی جانب مراجعت کرگیا۔ بعداز جنرل مشرف، زمانے میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ جہاں وزیراعظم اور وفاق مستحکم ہوا وہیں صوبوں کا دائرہ عمل وسیع تر ہوگیا۔

نتیجتاً دو منتخب اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرپائیں اور تیسری بھی دو تہائی مدت پوری کرنے کو ہے۔ اس دوران بھی دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف غیر پارلیمانی قوتوں کے ہاتھوں وزارت عظمیٰ کھو بیٹھے۔ اور سہرا چیف جسٹس کے سر پر سجا جس نے ٹرائیکا کی تلخ یاد تازہ کردی۔ لیکن ہر دو ادوار میں ایک قدر مشترک رہی کہ یہ سیاسی و فوجی قیادت کے مابین مستقل اندرونی طاقتی کشمکش سے عبارت رہے۔

گویا سیاسی استحکام کے لئے ناگزیر ہوگیا کہ یا تو سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحہ پر رہے یا پھر سیاسی قیادت مصالحت پہ مجبور ہو یا پھر راندہ درگاہ کردی جائے۔ اگر صدر آصف علی زرداری کے خلاف میمو گیٹ بنایا گیا تو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ڈان لیکس اور پھر پانامہ پیپرز کا شور شرابہ مچوایا گیا۔

پھر بھی کام نہ بنا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری اور چیف جسٹس ثاقب نثار دو وزرائے اعظم کے لئے قاضی القضاۃ بن کر سامنے آئے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر دو بڑی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش میں مقتدرہ کا مہرہ بن گئیں۔

دس برس تک دو جماعتوں کی قدر مستحکم لیکن نیم مقتدرہ حکومتوں کے تلخ تجربے کے بعد گھڑا بھی گیا تو ایک عجیب الخلقت ہائبرڈ نظام جس کا مرکزی مہرہ وزیراعظم کو بنایا گیا کہ قومی سلامتی کی ریاست کا کاروبار عسکری قیادت کے حسب منشا چلے۔ ٹرائیکا کے تحت جنرل ضیا اور وزیراعظم جونیجو کی جوڑی چلی، نہ اب سلیکٹر اور سلیکٹڈ کا ساتھ چل پارہا ہے ۔

اس چپقلش میں بڑے ہی اہم سوال پہلی بار سرعام زیر بحث آرہے ہیں۔ معلوم یہ پڑا کہ ہماری بیرونی (و اندرونی) سلامتی کے اہم ترین ادارے آئی ایس آئی کا آئین و قانون میں کہیں ذکر نہیں بلکہ یہ وزیراعظم کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت نہ صرف وجود میں آیا بلکہ خفیہ پن کے پردوں میں قومی سلامتی کے بڑھتے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے پھیلتا چلا گیا۔یہ بھی واضح نہیں کہ یہ ایک سویلین ایجنسی ہے یا افواج کا ادارہ ہے؟

اس کا چیف وزیراعظم کو جوابدہ ہے اور افواج پاکستان کے تینوں شعبوں سے افسر ڈیپوٹیشن پہ آئی ایس آئی میں بھیجے جاتے ہیں، لہٰذا وہ کسی ایک عسکری ادارے کے چیف کے تحت نہیں ہوسکتے۔ پہلے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں بیرونی سلامتی کے ساتھ ’’اندرونی سلامتی‘‘ تک اس کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔

یوں اس کا سیاسی کردار بڑھتا چلا گیا۔ چالیس سال سے جاری افغان جنگوں اور جہادوں میں شرکت سے اس کا کردار بہت ہی موثر ہوتا چلا گیا اور آئی ایس آئی پاکستان کی سلامتی کا ہر اول دستہ بن گیا۔

بعدازاں جنرل ضیا الحق نے اسے پیپلزپارٹی اور ایم آر ڈی کو دبانے اور اپنا غیر سیاسی نظام مسلط کرنے کے لئے استعمال کیا اور یوں جونیجو لیگ وجود میں آئی جو میاں نواز شریف کے نام سے پنجاب کی بڑی جماعت بن کر ابھری۔ پھر جنرل اسلم بیگ نے پہلے بریگیڈیئر امتیاز بلا کے ذریعہ اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد بنواکر پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے اور مسلم لیگ ن کو برتری دلوانے کے لئے آئی ایس آئی کو استعمال کیا۔ اور یہ سلسلہ اٹھارویں ترمیم آنے کے بعد بھی چلتا رہا۔

تاآنکہ ہائبرڈ نظام کو مسلط کرنا پڑا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے جنرل حمید گل کی جگہ ایک ریٹائرڈ جنرل کلو کو آئی ایس آئی چیف لگایا۔

اسی طرح وزیراعظم نواز شریف نے اپنی پسند کے دو آئی ایس آئی چیف جنرل ناصر اور جنرل ضیا الدین بٹ لگائے لیکن ہر دو وزرائے اعظم کی رِٹ نہ چلی۔

تو پھر اب قضیہ کیا ہے؟ وزیراعظم عمران خان موجودہ آئی ایس آئی چیف کو گزشتہ جولائی سے ان کے عہدے پر برقرار رکھنے پہ بضد تھے اور مزید چھ ماہ تک رکھنا چاہتے تھے۔

دوسری طرف آرمی میں تھری اسٹار جنرلز کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے نئی تقرریاں یا تبادلے ناگزیر تھے۔ یہ آرمی چیف کا استحقاق ہے کہ وہ کسے تین اسٹار جنرل بنائے اور اسے کہاں تعینات کرے۔ لہٰذا ضروری تعیناتیوں کے احکامات جاری کردئیے گئے جس میں جنرل فیض حمید کی بطور کور کمانڈر پشاور کور میں تعیناتی بھی شامل تھی جس کی جنرل فیض حکم عدولی نہیں کرسکتے۔

رہ گیا معاملہ نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کا تو یہ وزیراعظم کی صوابدید پر ہے۔ تو پھر یہ تنازعہ کیوں کھڑا ہوگیا جس سے پورا ہائبرڈ نظام دہل گیا ہے۔

وسیع تر ناقدین اس بات پر متفق ہیں اور اپوزیشن بھی یہی الزام لگارہی ہے کہ سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لئے آئی ایس آئی کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جبکہ عمران خان گورننس میں ناکامی کے باعث ہر حالت میں صرف آئی ایس آئی ہی نہیں بلکہ قومی احتساب بیورو، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں میں ایسے سربراہ چاہتے ہیں جو نہ صرف ان کی حکومت کا آلہ کار بنیں بلکہ ان کی اگلے انتخابات میں کامیابی یقینی بنائیں۔

لہٰذا اب یہ سیاسی محاذ آرائی کا اہم ایشو بن گیا ہے۔ رائے عامہ میں فوج کے سیاست میں مداخلت کے حوالے سے جس تیزی سے منفی فضا بنی ہے تو فوج اس پر آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔

لگتا ہے کہ بڑھتے ہوئے عوامی دبائو کے باعث فوج نے بطور ادارہ سیاسی رسہ کشی سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ سیاسی و آئینی نظام کے تسلسل کے لئے خوش آئند ہے۔ اب وزیراعظم جسے بھی آئی ایس آئی چیف لے آئیں، ان کی دال گلنے والی نہیں۔

دو سِری نظام کا ہائبرڈ چربہ بھی بحران کا شکار ہوگیا اور اب سیاست کا ہنگامہ خیز دور شروع ہونے کو ہے، لیکن نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی ڈھاک کے تین پات یا پھر دو سِروں والے نظام کی جگہ پارلیمانی نظام کی بالادستی؟