محسنِ پاکستان، مددِ خدا

October 23, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

الیکشن1977ء میں ملک گیر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف متحدہ اپوزیشن، پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے اختتامی دنوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ سائرس وین کا وہ خط پنڈی کے راجہ بازار کے ایک عوامی اجتماع میں لہرا دیا جس میں بقول ان کے ایٹمی پروگرام سے باز ررہنے وگرنہ نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی تھی ۔اس سے قبل فروری 1974ء میں اسلامی کانفرنس کے اختتام پر وزیر اعظم بھٹو نے قذافی اسٹیڈیم میں لیبیا کے جواں سال کرنل معمر قذافی (جو شاہ ادریس کا اقتدار ختم کرکے نئے نئے اقتدار میں آئے تھے ) کے ہمراہ جلسہ عام سے خطاب کرتے اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کو للکارتے لاہوری مجمعے سے بہت جذباتی انداز میں بھارت کے خلاف لڑنے مرنے کا پرجوش عہد لیا کہ یہ ان کی عملی سیاست کا خصوصی فیچر تھا۔کہوٹہ لیبارٹری کے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی مغربی پریس میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام شروع ہونے کی خبریں تواترسے آنے لگیں اور اسے خالصتاً پروپیگنڈا اسٹائل میں اسلامک بم کی تیاری سے تعبیر کیا جانے لگا ۔ پھر ابتدائی مالی امداد مہیا کرنے کےلئے معمر قذافی کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا۔

اس پس منظر کے ساتھ الیکشن 77 میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک، جو تحریک نظام مصطفیٰ میں تبدیل ہو گئی تھی، کے ردعمل میں حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کے دوران ہی 4جون 1977ء کو ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ یہ تو درست ہے کہ بھٹو حکومت پر ایٹمی پروگرام کو روکنے کےلئے کارٹر ایڈمنسٹریشن کا دبائو بہت واضح تھا جسے وزیر اعظم بھٹو نے تحریک کے اختتام پر امریکی انتظامیہ کا دھمکی آمیز خط راجہ بازار میں لہرا کر مکمل آشکار کر دیا تھا یوں بھٹو صاحب نے واضح تاثر دیا تھا کہ میرے خلاف تحریک امریکہ نے چلوائی ہے اس کے باوجود جمی کارٹر انتظامیہ نے پاکستان میں مارشل لا کے قیام پر اپنی تشویش اور بیزاری کا اظہار کیا تھا جبکہ یہ تجزیہ اور خدشہ بھی ہونے لگا کہ مارشل لا حکومت امریکی انتظامیہ کی اشیر باد لینے کے لئے ابتدا میں ہی ایٹمی پروگرام کی سرگرمی ختم یا کم تر کرکے بتدریج لپیٹ نہ دے محدود درجے پر یہ شک بھی ہونے لگا تھا کہ کہیں بھٹو حکومت کا خاتمہ امریکہ نے انہیں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے پر سزا کے طور پر تو نہیں کر دیا ۔خود بھٹو صاحب یہ الزام لگا چکے تھے یہ تحقیق طلب ہے کہ سائر س وین کا خط وزیر اعظم بھٹو کو کس تاریخ کو ملا تھا اگر یہ تحریک کے اختتام پر ہی موصول ہوا تھا تو اس کا مقصد یہ پیغام بھی ہو سکتا ہے کہ جو سفارتی دبائو ان پر ایٹمی پروگرام سے باز رہنے کا ڈالا جا رہا تھا کہ وہ باز آجائیں تو ان کی حکومت کو بچایا جا سکتا ہے ، لیکن حکومت پی این اے مذاکرات کامیاب کرانے کے لئے پاکستان میں سعودی سفیر جناب ریاض الخطیب نے جو انتھک کوششیں کی تھیں وہ بھی اس شک کی بالکل نفی کرتی تھیں کہ ’’تحریک امریکہ نے چلوائی ہے ‘‘ یہ شکوک وشہبات اس بنتی نئی صورتحال میں ختم ہونے لگے جب ایران میں علماء کے مرکز قم سے اسلامی انقلاب کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور یہ ظہور پذیر ہو گیا ، شہروں میں پھیلنے لگا تو شاہ ایران نے اسے پاکستان میں تحریک نظام مصطفیٰ جسے عام سیاست دانوں سے زیادہ مذہبی سیاسی رہنمائوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا کا ہمسائے میں علماء کے سیاسی کردار کا اثر قرار دیا ۔ تحریک ختم ہوتے اور مارشل لا لگتے ہی قومی اتحاد کے سرگرم رہنما ایئر مارشل (ر) اصغر خاں ایران کے دورے پر گئے تو شاہ ایران نے ان سے اپنی فکر بیان کی کہ ’’آپ کے علماء کی تحریک نے ہمارے علماء کو بھی بھڑکا دیا ہے ۔پاکستان میں سیاسی حلقوں میں ’’اندر کی خبر‘‘ کی بنیاد پر ایک تبصرہ یہ ہونے لگا کہ اصغر خاں، جرنل ضیاء الحق کے اعلان کے مطابق 90روز میں ہونے والے پاکستانی انتخاب میں شاہ ایران، جو علاقے میں امریکی چوکیدار کہلاتے تھے کی وساطت سے امریکی اشیرباد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس بیانیے یا ’’اندر کی خبر‘‘ کو تحریک استقلال کے اس فیصلے سے تقویت ملی کہ ایران سے واپس آتے ہی اصغر خاں نے اپنی جماعت تحریک استقلال کی پاکستان قومی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ۔دوسری جانب بھٹو دور اور دوران تحریک کے قیدی ولی خاں ، چوہدری ظہور الٰہی ، اکبر بگٹی اور کچھ اور سیاسی رہنما اور صحافی حیدرآباد جیل سے رہا ہو کر ضیاء الحق کے 90روز میں انتخاب کرانے کے اعلان کو واپس لینے اور انہیں اپنی سیاسی معاونت سے اقتدار کو طول دینے پر آمادہ کرنے کے ہدف کے ساتھ سرگرم ہوگئے ۔میں نے ایک نیوزر پورٹر کے طور پر ولی خاں اور چوہدری ظہور الٰہی کے وہ اجتماعات رپورٹ کئے جن میں وہ کھل کر ’’پہلے احتساب ،پھر انتخاب‘‘ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ نتیجتاًنوابزادہ نصراللہ کی جماعت سمیت پی این اے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی سربراہی میں عبوری حکومتی کابینہ میں تبدیل ہوگئی بہت غور طلب ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کا یہ مرحلہ جس میں پاکستان خطے اور امریکی داخلی بنتی غیر معمولی صورتحال، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو SUSTAINABLEبنانے اور اس پر امریکی دبائو کم ہونے کا بھرپور موقع فراہم کر رہی تھی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی تحریک نے اتنا زور پکڑا کہ امریکہ تمام تر سفارتی اہداف کے باوجود خطے میں اپنے ’’چوکیدار‘‘ کو تحفظ دینے اور ایران سے اہم ترین امریکی اثر کو بچانے کے لئے کچھ کرنے کے قابل نہ رہا ۔جمی کارٹر کے دور کا یہ آخری مرحلہ تھا ۔

انتخابی تیاریاں شروع ہونے کو تھیں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہو گیا شاہ ایران فرار اور جلاوطن، انقلابی رہنما حضرت امام خمینی پی آئی اے کی فلائٹ سے پیرس سے تہران پہنچ گئے ۔پورا ایران ’’مرگ برگ امریکہ اور شیطان بزرگ، امریکہ ‘‘ کے نعروں سے گونجنے لگا امریکی سفارتی عملے کے 40ارکان یرغمال ہو گئے جمی کارٹر کے اختتامی دنوںمیں امریکہ، پاکستان دوری میں بہت اضافہ ہو گیا ۔ پہلے ہی ڈیموکریٹ کارٹر انتظامیہ پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ اور انتخاب ملتوی کرکے نیا سیاسی سیٹ اپ بنانے پر نالاں تھی ۔ اوپر سے خانہ کعبہ پر ایک یمنی گروہ نے جو دھاوا بولا اس کے فوری ردعمل میں دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان میں امریکہ مخالف مظاہرے شروع ہو گئے ، اس عوامی یقین سے کہ حرم بیت اللّٰہ پر حملے کی پشت پر امریکہ ہے ۔امریکی سفارتخانے پر مظاہرین نے حملہ آور ہو کر دو سفارتی کارکن تک ہلاک کر دیے ۔جس سے پاکستان اور امریکہ مزید دور ہو گئے لیکن پھر بہت جلد ہی آئیڈیل حد تک پاک امریکہ تعلقات پاکستان کے ایٹمی ماحول کے لئے سازگار ہو گئے ۔ واضح لگا کہ قدرت پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہر حالت میں کامیاب کرنے کی مکمل تائیدی ہے کہ اس نے راہیں ہی ایسی بنائیں۔(جاری ہے )