موجودہ حالات سے کون فائدہ اٹھائے گا؟

October 25, 2021

ایک طرف ملک میں مہنگائی کے خلاف سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے اور دوسری طرف کالعدم مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی ) نے بھی اسلام آباد کی طر ف لانگ مارچ شروع کیا ہوا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام میں پائی جانے والی شدید بے چینی سے کون فائدہ اٹھا سکے گا اور حالات کیا رخ اختیار کریں گے ؟

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خوفناک مہنگائی ، بے روزگاری اور بیڈ گورننس کی وجہ سے پاکستان کے عوام سخت بے چینی کا شکار ہیں اور ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ اس بے چینی کو کسی تحریک کی شکل دی جا سکے ۔ ماضی میں بھی جب ایسے حالات پیدا ہوئے تو پاکستان کی حقیقی مقتدر قوتوں نے انہیں ہائی جیک کیا اور عوام کی بے چینی کو اپنا رخ دیا ۔ کبھی بھی حقیقی عوامی جمہوری تحریک نہیں بننے دی گئی ، جس سے ملک میں کیفیتی سیاسی تبدیلی رونما ہو سکے اور نہ ہی حقیقی عوامی اور قومی جمہوری قوتیں اس قابل ہو سکیں کہ عوام کی بے چینی یا تحریک سے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں ۔

1948 میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خلاف مذہبی جماعتوں کی مہم چلائی گئی اور یہ سلسلہ 1988 ء میں گیارہویں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد ( آئی جے آئی ) کی مہم تک جاری رہا ۔ بعد ازاں بھی جو تحریکیں چلیں ، ان میں بھی مذہبی جماعتوں کا کردار زیادہ اہم رہا ۔ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی برطانوی نو آبادی حکمرانوں کے خلاف حقیقی عوامی مزاحمت کو کچلا گیا اور آزادی کی تحریک کو عوامی جمہوری یا سوشلسٹ انقلاب کی جانب نہیں جانے دیا گیا حالانکہ اس وقت برصغیر سمیت پوری دنیا کی تحریکوں کا رخ اس طرف تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی جماعتوں کو آگے لایا گیا اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی جیسی سوشل ڈیموکریٹک سیاسی جماعتوں کو آگے آنے کا راستہ مل گیا ۔ 1977 ء کے بعد پھر عالمی سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے پر ( جو پاکستان کی مقتدرہ کے ایجنڈے سے بھی میل کھاتا تھا ) مذہبی قوتوں کو سیاست میں زیادہ اہم کردار سونپ دیا گیا ۔ ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوجی آمروں کے خلاف تحریکوں کو بھی مقتدر قوتوںنے اپنے کارندوں کے ذریعہ ہائی جیک کیا ۔ پرویز مشرف کے خلاف ’’ عدلیہ کی آزادی کی تحریک ‘‘ اس کی آخری مثال ہے ۔

صرف ضیاء الحق کے خلاف چلنے والی تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) بہت حد تک عوام کے ہاتھ میں رہی ۔ اس کے اثرات سے آج بھی مقتدر قوتیں خوف زدہ ہیں اور اس جیسی تحریک کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی ’’ تحریک ‘‘ صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومتوں کے خلاف رہی اور پی ٹی آئی کو انتہا پسند مذہبی تنظیموں نے سیاسی میدان خالی کرکے دیا ۔ پی ٹی آئی کی تحریک نے غیر سیاسی قوتوں کو مضبوط کیا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت خود بے بسی کا شکار ہے ۔ غرض ماضی کی طرح آج بھی عوام کی بے چینی سے ممکنہ طور پر بننے والی تحریک کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے ۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ آج پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) میں شامل جماعتیں آج اسلام آباد لانگ مارچ کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ حالانکہ جب پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں شامل تھی اور اسمبلیوں سے استعفوں کی بجائے لانگ مارچ کی بات کر رہی تھی تو پی ڈی ایم میں شامل موجودہ جماعتیں بشمول مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام ( جے یو آئی ) لانگ مارچ کی مخالفت کر رہی تھیں اور پہلے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی بات کر رہی تھیں ۔ پھر انہوں نے پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکال کر لانگ مارچ مارچ منسوخ کرنے کا یکطرفہ اعلان کر دیا ۔ اب وہی پی ڈی ایم کی جماعتیں لانگ مارچ کی بات کر رہی ہیں ۔ یہ بھی کوئی اتفاق نہیں ہے کہ کالعدم ٹی ایل پی نے بھی بڑے پیمانے پر احتجاج اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کر دیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور کالعدم ٹی ایل پی موجودہ سیاسی بے چینی میں مکمل طور پر کود چکی ہیں ۔ پیپلز پارٹی بھی مہنگائی کے خلاف الگ مظاہرے کر رہی ہے ۔ عوام حالات سے تنگ آکر خود بھی سڑکوں پر نکلنا چاہتے ہیں ۔

عوام کا کیا ہو گا ؟ عوام کی بے چینی کو ملک میں کیفیتی سیاسی تبدیلی کی تحریک میں تبدیل کرنے کے موجودہ موقع کو ضائع ہونے سے کوئی بچا سکے گا ؟ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کا کیا ہو گا ؟ اس کا انحصار اس کے سرپرستوں سے تعلقات پر ہوگا جبکہ سیاسی قوتیں موجودہ حالات سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتی ہیں ؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ تحریک پر کوئی سمجھوتہ کرتی ہیں یا نہیں ۔ کسی سمجھوتے کے بغیر پرامن سیاسی تحریک کا جاری رہنا ملک اور عوام کے مفاد میں ہو گا ۔