حسینہ واجد کی نیک خواہش

October 27, 2021

پاکستان سرِ دست جن اقتصادی و معاشی بحرانوں میں گھرا ہے وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ وطن عزیز نہ صرف اپنے دوست ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھائے بلکہ نئے دوست بھی بنائے ۔جنوبی ایشیا میں پاکستان اگرچہ تنہائی کا شکار نہیں تاہم اسکے سری لنکا کے علاوہ کسی ملک سے کوئی مثالی تعلقات بھی نہیں ۔ ان حالات میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کا اپنی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات اور اقتصادی تعاون کی خواہش کا اعادہ ہمارے لئے سوکھے دھانوں پر پانی پڑنے سے کم نہیں ۔ حسینہ واجدکی بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی سے گیارہ مہینوں میں دوسری ملاقات دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی عکاس ہے۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر حسینہ واجد کے پہلے دورہ پاکستان کی تیاریاںجاری ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب 2009 میں حسینہ واجد نے بطور وزیر اعظم 1971 کے 'جنگی جرائم کے مقدمے کی سماعت بحال کروائی تھی۔تاہم گزشتہ برس اس وقت تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے تھے، جب بھارت کی جانب سے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد دہلی،ڈھاکا تعلقات میں سرد مہری آنا شروع ہوئی ،مزید یہ کہ ڈھاکا میں بڑھتا ہوا چینی اثر و رسوخ بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کو قریب لایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے 1971کو ہمیشہ ماضی کا ایک بند باب کہا ہے ،یہی وجہ تھی کہ فروری1974میں لاہور میں بھٹو کی بلائی گئی اسلامی سربراہی کانفرنس میں حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی شرکت کی۔ماضی میں جو ہوا سو ہوا اب اس کو فراموش کرکے آگے بڑھنے میں ہی بہتری ہے۔باہمی تعاون عصرِ حاضر کی ناقابل فراموش حقیقت ہے تو کیوں نہ اس کا سلسلہ اپنوں سے شروع کیا جائے ۔امید ہے کہ شیخ حسینہ واجد جلد پاکستان کا کامیاب دورہ کریں گی۔