گزشتہ سے پیوستہ

August 07, 2013

گزشتہ کالم میں، میں نے اپنے کھانوں کو موضوع بنایا تھا کہ ہم لوگ خوراک کے نام پر مرچ مسالحے کھاتے ہیں اور کھانے کی مختلف اشیا کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ سبزیاں، دالیں، چاول، گوشت غرضیکہ ہر شے کی اصل شکل و صورت، ذائقہ اور خوشبو تباہ و برباد کرنا ہی ہمارے نزدیک عمدہ ”پکویا“ ہونے کی نشانی ہے۔ اس کالم پر میرے دو دوستوں کا ردعمل بہت دلچسپ تھا۔ ایک امیرالعظیم دوسرے ”پانچویں درویش“ فیم جوادنظیر۔ برادر عزیز امیرالعظیم نے بتایا کہ ترکی میں وہاں کے ایک باشندے سے ان کی دوستی ہوگئی جو بعد ازاں کچھ عرصہ کے لئے پاکستان بھی آیا اور ”منصورہ“ میں پاکستانی کھانوں کے ساتھ ”دست و گریباں“ رہا۔ پھرایک روز اسے ایم ایم عالم روڈ کے ایک ریستوران میں دعوت دی گئی۔ وہاں کے ”ہوشربا“ کھانوں نے معزز مہمان کے اوسان خطا کردیئے۔ منہ سے بھاپ، کانوں سے دھواں، نتھنوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں لیکن وضعدار ترک مہمان نے میزبانوں کادل رکھنے کے لئے انگاروں پر بیٹھ کر ”نیوکلیئر“ کھانوں کی تعریف کی۔ واپسی پر لبرٹی مارکیٹ سے گزرتے ہوئے ترک مہمان کی نظرگنے کے تازہ رس کی ریڑھیوں پر پڑی تو جلتی زبان کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس نے گنے کا رس پینے کی فرمائش کی۔ گاڑی روک کر آرڈر دے دیاگیا اور مہمان بے صبری سے گنے کا رس نکالنے کا پراسیس دیکھنے لگا۔ دکاندار نے گلاس بھرے۔ ہر گلاس کے اوپر کوئی چیز چھڑکی اور گاہکوں کی خدمت میں پیش کردیئے۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے سو ترک مہمان نے تجسس اور خوف کے مارے پوچھا… ”گنے کے رس کے اوپر کیاچھڑکا گیا ہے؟“ میزبان نے فخر سے بتایا… ”پسی ہوئی کالی مرچ“ حیرت سے ترک مہمان کی آنکھیں اور زبان باہر نکل آئی اور اس نے ساری وضعداری مع پاک ترک دوستی بالائے طاق رکھ کر چیختے ہوئے کہا… ”برادران اسلام! تم کیسے عجیب اورظالم لوگ ہو کہ گنے کارس بھی مرچیں ڈالے بغیر نہیں پیتے۔“ دوسری طرف برادرم جوادنظیر نے جو تبصرہ کیا وہ بہت ہی قابل غور اور سوفیصد سائنٹفک ہے۔ جوادنظیر نے کسی پرانی ریسرچ کے حوالے سے بتایا کہ مختلف قسم کے مسالحوں کے اثرات انسانی جینز تک پر اثرانداز ہوتے ہیں سو نتیجتاً انسانی رویوں اورسوچ تک کو متاثر کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بہت ہی منطقی او رقابل فہم بات ہے مثلاً اگر پیا ز میں الیسن (Allicin) پایا جاتا ہے جو بھوک کو مارتا ہے اور ٹماٹروں میں لائیکوپین (Lycopene) ، ساگ پالک میتھی وغیرہ میں کیلشیم، آئرن، میگنیشم، چقندر میں فولیٹ وٹامن،مشروم میں پوٹاشیم ، کچی گوبھی میں Myrosinase وغیرہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے بیسیوں قسم کے جو مسالحے ہم بے دریغ استعمال کرتے ہیں ان میں بھی جانے کیا کیاکچھ نہ ہوتا ہوگا جو اندر جاکر کیسے کیسے گل کھلاتا ہوگا، کیسے کیسے کام دکھاتا ہوگا۔ میرا تو یہ سبجیکٹ نہیں لیکن جن لوگوں کا یہ شعبہ ہے ان میں سے کسی کو یہ جاننے کا تردد کرنا چاہئے کہ مختلف قسم کی مرچوں مسالحوں میں ہوتا کیا ہے اور انسانی بدنیات اور نفسیات پر کیسے اثرات مرتب کرتا ہے؟ ویسے کامن سینس کی بات ہے بچہ بچہ جانتا ہے کہ نمک فشار ِ خون بڑھاتا ہے اور ہلدی زبردست قسم کی اینٹی بائیوٹک ہے تو باقیوں میں بھی بڑے بھید ہوں گے۔موٹے دماغوں اور موٹی کھالوں کے درمیان اہل مغرب میں کیڑے ڈالنے کا بہت رواج ہے حالانکہ ان کے احسانات کا ریکارڈ مرتب کرنے بیٹھیں تو دنیا بھر کی سیاہی ختم ہو جائے۔ احساس کمتری کے ان مریضوں کو سمجھانے کی کوشش کریں توالٹا ”مرعوبیت“ کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ اگرکوئی خوبصورت، صحت مند، محنتی ذہین ہو تو اس کی خوبصورتی، صحت مندی، محنت یا ذہانت کااعتراف یا تعریف ”مرعوبیت“نہیں حقیقت پسندی ہے اور جو ایسا نہ کرے وہ ڈھیٹ، عقل کا اندھا یا کم ظرف ہی ہوسکتا ہے لیکن کیا کریں کہ بینی فشریز یعنی طفیلئے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہزار ہا سال سے انسان جانے بوجھے بغیر ہر شے کھائے پیئے جارہا ہے۔ کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ گندم، جو ، مکئی، باجرہ، چاول، آلو، مچھلی، بیف، چکن وغیرہ بدن میں جا کر کتنا فائدہ یا نقصان کرتے ہیں۔ ابھی کل تک کی بات ہے جب شراب اور سگریٹ نوشی تک کے حقیقی اور سائنسی نقصانات کے بارے میں بھی کوئی کچھ نہ جانتا تھا۔ بظاہر ہزاروں سال پہلے قدیم ہندو مذہب میں بھی ہر نشہ ممنوع قراردیاگیا لیکن سائنسی جواز اور جواب پوری تفصیل کے ساتھ ندارد جبکہ آجکل تو ہرروز نت نیا نشہ ”ایجاد“ ہو رہا ہے۔ سکھ دھرم میں سگریٹ حقہ نوشی سختی سے منع ہے…بہت اچھی بات لیکن اس کے کینسرس ہونے کی خبربہت بعد کی بات ہے تو دوسری طرف اب ایسا ایسا نشہ بھی متعارف ہوچکا جس کے سامنے سگریٹ اور شراب کمی کمین، ”معصوم“ اور ”بے ضرر“ دکھائی دیتے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں جانکلی حالانکہ معروضات کا مقصد صرف اس بات کو ہائی لائٹ کرنا تھا کہ ہمیں اپنی ”خوراکیات“پر غور کرنا چاہئے۔ اجزاء ترکیبی کے خصائص بارے جاننا چاہئے اور اگر ممکن ہو تو اپنی کوکنگ کے طریقوں پر نظرثانی کرنی چاہئے کہ ”کوالٹی آف ڈائٹ‘ ‘ کا ”کوالٹی آف لائف“ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔کھانے کی عادات (Eating habits) خصوصاً میری عمر کے لوگوں کے لئے تبدیل کرنا تو خاصا مشکل کام ہوگا لیکن ممکن ہو تو بچوں کے کھانے پینے میں کوشش کریں کہ وہ چسکورے، چٹورے نہ بنیں اور کھانے کے نام پر مرچیں مسالحے کھانے سے بچیں۔ ہوسکے تو انہیں فاسٹ فوڈ سے بھی ذرا دور رکھیں جو بندے کو بالآخر Slowکردیتی ہے اوراسے متعارف کرانے والے خود اسے ”جنک فوڈ“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔