ایڈز ناقابلِ علاج سہی، بچاؤ تو ممکن ہے

November 28, 2021

عالمی ادارۂ صحت اور یونائیٹڈ نیشنز جوائنٹ پروگرام آن ایڈز کے اشتراک سے ہر سال یکم دسمبر کو ’’ایڈز کے انسداد کاعالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دِن پہلی بار1988ءمیں منایا گیا، تاکہ ہر سطح تک اس مرض سے متعلق درست معلومات عام کی جاسکیں۔ تب سے تاحال یہ یوم اسی مقصد کے تحت مختلف تھیمز یا سلوگنز کے ساتھ منایا جارہا ہے۔اِمسال کا تھیم"End Inequalities. End AIDS" ہے۔

یعنی ’’عدم مساوات ختم کرکے ایڈز کا خاتمہ کریں۔‘‘ اس وقت دُنیا بَھر میں 38 ملین افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ 2019ء میں 1.7 ملین افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے اور تقریباً 6 لاکھ 90 ہزار انتقال کرگئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں ہر 9ماہ کے بعد ایڈز کے مریضوں کی تعداد گنی ہوجاتی ہے،جب کہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد2لاکھ 40ہزار ہے، جن میں سے 46,919مریضوں نے خود کو اس ادارے کے تحت رجسٹرڈ کروایا ہواہے۔

نوّے کی دہائی میں ہالی وُڈ کے معروف اداکار، راک ہڈسن ایک عجیب و غریب مرض میں مبتلا ہوئے۔ پیرس کے ایک اسپتال میں ان کا علاج ہوا، مگر علاج کی تمام تر جدید سہولتیں میسّر ہونے کے باوجود 2اکتوبر 1985ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ بعد ازاں، پتا چلا کہ وہ ایڈزسے متاثرتھے۔ راک ہڈسن پہلے آدمی نہیں تھے، جو اس بیماری کا شکار ہوئے، مگر ان کی وجہ سے دُنیا بَھر میں اس مرض کا خُوب چرچا ہوا۔ راک ہڈسن نے تیس سال تک پردۂ سیمیں پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں۔

ِاسی لیے ابتدامیں ایڈز کو جنسی بے راہ روی ہی کی بیماری تصوّر کیا جاتا رہا، مگر بعد میں تحقیق کے نتیجے میں دیگر اسباب بھی سامنے آئے۔ ایڈز ایک مخصوص وائرس ایچ آئی وی(Human Immunodeficiency virus) کے ذریعے پھیلتا ہے، جب کہ ایڈز کے پہلے حرف اے سے مُراد Acquired، آئی سے Immune، ڈی سے Deficency اور ایس سے Syndrom ہے۔ یعنیAcquired Immunodeficiency Syndrome۔ اس مرض میں مبتلا مریض کا مدافعتی نظام اس حد تک کم زور ہوجاتا ہے کہ وہ بتدریج مختلف عوارض کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔

دراصل اُس کی اینٹی باڈیز بیرونی حملہ آوروں سے خلاف مؤثر دفاع نہیں کر پاتیں، یعنی جسم اس قابل نہیں رہتا کہ وہ خود کو کسی بھی بیماری سے محفوظ رکھ سکے، نتیجتاً بار بار مختلف بیماریاں، وائرسز اور جراثیم حملہ آور ہوتے رہتےہیں۔ ایڈز انسانوں تک کیسے منتقل ہوا، یہ جاننا انتہائی مشکل ہے کہ اس حوالے سے مختلف نظریات موجود ہیں، لیکن جب یہ مرض کسی کو لاحق ہوجائے، تو وہ مختلف ذرائع سے کسی دوسرے فردتک اپنا مرض منتقل کرسکتا ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر جسم کی مختلف رطوبتوں اور خون میں پایا جاتا ہے۔

اس میں مبتلا مریض کو دو درجات میں منقسم کیا جاتا ہے۔ ایک درجے میں وہ مریض شامل ہیں، جن میں ایڈز کا وائرس پازیٹیو ہوتا ہے، لیکن فعال نہیں۔ یہ وائرس بہت عرصے تک پازیٹیو رہتا ہے، لیکن تاحال ایسی کوئی دوا یا علاج کا کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوسکا، جس سے وائرس کو ایکٹیو ہونے سے روکا جاسکے، لہٰذا جو افراد ایچ آئی وی پازیٹو ہوں، وہ احتیاطی تدابیر ہی اختیار کرسکتے ہیں۔

نیز، کم زوری، بخار اور دیگر عوارض کا علاج لازماً ہونا چاہیے اور مریض کو اپنا مرض چُھپا کر، مرض کے مزید پھیلاؤ کا سبب ہرگز نہیں بننا چاہیے۔ دوسرے درجے میں وہ مریض شامل ہیں، جن میں ایڈز کا وائرس فعال ہو چُکا ہو۔بہرحال، ایچ آئی وی پازیٹیو ہونے کی صُورت میں ادویہ کے استعمال اور نفسیاتی مدد کے ذریعے طویل عرصے تک ایڈز کو فعال ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

یوں تو اس وائرس کی ایک سے دوسرے فرد میں منتقلی کی متعدّد وجوہ ہیں، لیکن یہ مرض زیادہ تر غیر محفوظ جنسی تعلقات، خون کی منتقلی یعنی بلڈ ٹرانس فیوژن، ایک سے زائد بار سرنج کے استعمال اور غیر مطہر آلاتِ جرّاحی کے ذریعے پھیلتا ہے اور پاکستان میں بھی اس مرض کے پھیلاؤ کی یہی وجوہ ہیں۔

واضح رہے، ایڈز کا مرض متاثرہ فرد سے ہاتھ ملانے، ساتھ بیٹھنے، کھانا کھانے سے منتقل نہیں ہوتا، البتہ ایڈز کی شکار ماں سے بچّے میں منتقل ہو سکتا ہے۔ دُنیا بَھر میں جہاں جہاں نشہ کرنے والے افراد موجود ہیں، وہ عموماً گروپ کی صُورت ایک ہی سرنج کا استعمال کرتے ہیں اور اگر ان میں سے کسی ایک نشئی میں ایڈز کا وائرس موجود ہو، تو پھر وہ ان تمام افراد تک منتقل کردیتا ہے۔

اس کے علاوہ بعض اسپتالوں اور کلینکس میں عموماً سرنجز استعمال کرنے کے بعد منظور شدہ طریقے کے مطابق تلف نہیں کی جاتیں اور کوڑا دانوں میں پھینک دی جاتی ہیں، جہاں سے بعض افراد انھیں اُٹھا لیتے ہیں اور دھونے کے بعد یا تو خود استعمال کر تے ہیں یا پھر فروخت کردیتے ہیں، بالخصوص اتائی علاج گاہوں میں اسی طرح کی سرنجز استعمال کی جاتی ہیں۔ اِسی طرح اگر جرّاحی اور دانتوں کے علاج کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات اسٹرلائیزڈ نہ ہوں، تو ممکن ہے(اگر ان کا استعمال ایڈز میں مبتلا مریض کے لیے ہوچُکا ہو)،یہ موذی مرض کسی دوسرے فرد میں منتقل ہوجائے۔

اسپتالوں اور کلینکس میں تو ان آلات کو اسٹرلائیز کیا جاتا ہے، لیکن فٹ پاتھ پر جو اتائی دانتوں کا علاج کرتے ہیں، وہاں ان آلات کو جراثیم سے پاک کرنا ممکن ہوتا ہے، نہ ہی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں،نتیجتاً یہ مرض، دوسرے فرد میں جو ایڈز پھیلنے کے کسی بھی ذریعے سے وابستہ نہیں ہوتا، باآسانی منتقل ہوجاتا ہے۔

بڑے اسپتالوں اور کلینکس میں کسی بھی جرّاحی کے عمل سے پہلے ایڈز، ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ٹیسٹ لازماً کروائے جاتے ہیں، تاکہ تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکیں اور وائرس موجود ہونے کی صُورت میں اس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔اس کے علاوہ مرض پھیلنے کے دیگر محرّکات میں متاثرہ ماں کا نومولودکو دودھ پلانا، جِلد گودنے یا اس پر نقش و نگار (ٹیٹوز وغیرہ) بنوانے یا ناک، کان چِھدانے کے دوران، ایسی سوئی یا اوزار کا استعمال،جو جراثیم سے پاک نہ ہو، شامل ہیں۔

ایڈز کی ابتدائی علامات میں بخار، سردی لگنا،زائد پسینہ، بہت زیادہ نیند آنا، سانس پُھولنا، مستقل تھکاوٹ،نمونیا، آنکھوں میں دھندلاہٹ، گلے میں سوجن، نزلہ زکام، جوڑوں اور پٹّھوں میں درد وغیرہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ جِلد پر زخم ہوجانا بھی ایڈز کی علامت ہے۔ عمومی طور پر ایڈز میں مبتلا مریض ابتدائی علامات کے ساتھ طویل عرصے تک بظاہر صحت مند نظر آتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ علامات شدّت اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔

نیز، مختصر عرصے میں وزن خاصا کم ہوجاتا ہے، اسہال کی مستقل شکایت رہتی ہے، جب کہ کھانسی اور بخار کی شدّت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس صُورت میں فوری طور پر معالج سے رجوع کیا جائے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ایڈز کی حتمی تشخیص کے لیے صرف علامات کا ہونا ہی کافی نہیں۔

اس کے لیے مریض کے سماجی تعلقات اور عادات و اطوار سے متعلق معلومات بھی حاصل کی جاتی ہیں، پھر حتمی تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے، جس کے مختلف طریقے ہیں۔بہرحال،ا یچ آئی وی کی تشخیص کے لیے معالج جو بھی ٹیسٹ تجویز کرے، وہ کسی مستند لیبارٹری ہی سے کروایا جائے، تاکہ بروقت اور درست تشخیص ممکن ہوسکے۔

ایڈز وائرس کی جسم میں موجودگی سے لے کر فعال ہونے تک مریض کے اندر مسلسل ایک جنگ کی سی کیفیت رہتی ہے۔ اگر مناسب ادویہ استعمال کی جاتی رہیں، تو طویل عرصے تک بیماری متحرک نہیں ہوتی، لیکن ایڈز کے مریضوں کو ادویہ کے ساتھ نفسیاتی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ حوصلے اور جرأت مندی سے مرض کا مقابلہ کرسکیں۔ یاد رکھیے، جوں ہی مریض میں کوئی کم زوری واقع ہوتی ہے، ایڈز کا وائرس فعال ہوجاتا ہے۔ اگر علاج کی بات کریں تو اس مُوذی مرض کا کوئی علاج نہیں۔ یہ بیماری رفتہ رفتہ انسان کو موت کے دھانے تک لے جاتی ہے۔

تاہم،مختلف طبّی مسائل سے نمٹنے کے لیے ادویہ وغیرہ تجویز کی جاتی ہیں۔یہ عمل طبّی اصطلاح میں Symptomatic Treatment کہلاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایڈز کاباقاعدہ طور پر علاج ممکن نہیں، لیکن ایسی کئی احتیاطی تدابیر ہیں، جنہیں اختیار کر کے ایڈز سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ مثلاً خون کا عطیہ لینے سے قبل ایچ آئی وی اسکریننگ کروائی جائے، ہمیشہ نئی سرنج کا استعمال ہو،سرجری یا دانتوں کے علاج کے آلات جراثیم سے مکمل طور پر پاک ہوں۔ بغیر ضرورت انجیکشن یا ڈرپ لگوانے سے گریز کریں۔

حجامت کے لیے ہمیشہ نیا بلیڈ استعمال کریں، بچّے کی ختنے سے قبل یہ تسلی کرلیں کہ آلات جراثیم سے پاک ہیں یا نہیں، کان یا ناک چھدوانے کے لیے بھی صاف سوئی استعمال کی جائے۔ اگر کسی گھر میں ایڈز کا مریض موجود ہو تو اس کے زیرِ استعمال نیل کٹر، ریزر الگ رکھیں، اگر کوئی حاملہ خاتون ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو، تو زچگی کے لیے دائی سے رجوع کرنے کی بجائے معیاری اسپتال کو ترجیح دی جائے اور پیدایش کے فوراً بعد نومولود کا ایڈز کا ٹیسٹ کروایا جائے۔ اگرٹیسٹ رپورٹ مثبت ہو، توبچّے کا علاج لازماً کروائیں اور نیگیٹو ہونے کی صُورت میں بھی چھے ہفتے پر مشتمل کورس کروائیں۔

ایڈز کی شکار مریضہ ماں کو چاہیے کہ وہ نومولود کو اپنادودھ نہ پلائے،جب کہ ایڈز میں مبتلا مریض جب بھی کسی مرض ،خصوصاًدانتوں کا علاج کروائے، تو معالج کو اپنی بیماری سے ضرور آگاہ کرے، تاکہ وہ ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرسکے۔ ڈاکٹرز کی بھی یہ ذمّے داری بنتی ہے کہ ایڈز سے متاثرہ مریض کا معائنہ انتہائی توجّہ سے کریں اوران سے حُسنِ سلوک سے پیش آئیں، جب کہ طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق بیماری کا مکمل علاج کیا جائے۔

برِّصغیر میں بدقسمتی سے ایڈز کے مرض کا ایک پہلو تو اس کا مُہلک ہونا ہے، لیکن ساتھ ہی مریض مستقل طور پر پریشانیوں اور ذہنی دباؤ ہی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ یعنی ایڈز کے ساتھ وہ اُداسی، گھبراہٹ، خوف اور بے چینی کی کیفیت سے گزرتا ہے،لہٰذا ایڈز کے مریضوں کو یہ تربیت دینا بھی ناگزیر ہے کہ اس مرض کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔ اُنہیں ہر مرحلے پر زیادہ نفسیاتی مدد اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں اُن کے ساتھ بالکل اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایڈز لاحق ہونے کے بعد مریض کیا کرے، تو اس کے لیےفوری طور پر تو معالج سے رجوع کیاجائے اور اس کی ہدایات پر سختی سے عمل بھی ہو۔ یاد رکھیے، ایڈز کے مریض برسوں زندہ رہ سکتے ہیں، لیکن یہ اس امرپر منحصر ہے کہ بیماری کی شدّت کتنی ہے، مریض کو لاحق دیگر طبّی مسائل کا علاج ہو رہا ہے یا نہیں، نفسیاتی مدد فراہم کی جارہی ہے یا نہیں۔ یاد رہے، نفسیاتی مدد یقینی بنانے کے لیے مُلک بَھرمیں کئی سینٹرز قائم ہیں، جہاں ایڈز کے مریضوں کو اجتماعی طور پر رکھا جاتا ہے اور انہیں نہ صرف ادویہ مہیا کی جاتی ہیں، بلکہ ان کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایڈز میں مبتلا افراد کو غلط کردار کا حامل یا گناہ گار تصوّر کرکے ان سے بہت بُرا سلوک کیا جاتا ہے،جوانتہائی نامناسب روّیہ ہے کہ ایڈز کا مرض ضروری نہیں کہ جنسی بے راہ روی یا کسی بُری عادت ہی کا نتیجہ ہو، یہ مرض انتہائی شریف اور مکمل طور پر صحت مند انسان کو بھی محض ایک غلط سرنج کے استعمال سے لاحق ہو سکتا ہے اور یہ ان بے بنیاد، غلط تصوّرات ہی کا نتیجہ ہے، جو ایڈز میں مبتلا افراد خود کو لوگوں کی نظروں سے بچاتے اور علاج معالجے سے دانستہ گریز کرتے ہیں۔

معاشرے میں اس مرض کے معیوب ہونے کے تصوّر کی بیخ کنی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم سب کو اسلامی اصولوں کے مطابق پاکیزہ زندگی گزارنی چاہیے اور اپنے جیون ساتھی ہی تک محدود رہنا چاہیے، لیکن اگر کوئی شخص کسی بھی سبب اس مرض میں مبتلا ہوہی گیا ہے، تو اسے دھتکارنا ہرگز نہیں چاہیے۔ اللہ کی رحمت اور توبہ کا دروازہ ہمیشہ کُھلا رہتا ہے۔

ایڈز کے مریض کو معاشرے کے لیے بدنما داغ بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان مریضوں کی کاؤنسلنگ اور بحالیٔ صحت کے مراکز کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے،جس کے مثبت نتائج ہی برآمد ہوں گے کہ مناسب ادویہ اور نفسیاتی مدد کے ذریعے یہ مریض کئی سال تک عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں اور معاشرے میں ایک کارآمد فرد کی طرح اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ (مضمون نگار، نفسیاتی امراض کے ماہرِ ہیں اور رفاہ انٹرنیشنل اسپتال، اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) پنجاب کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں)