پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن

November 28, 2021

پنجاب میں درجنوں ایسے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں، جن سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔ تاہم، یہ ادارے کیسے کام کرتے ہیں؟ اُن کا دائرہ ٔکار کیا ہے؟ اہمیت کیا ہے؟ اور اُنہیں کس طرح مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ اِن باتوں سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔’’پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن‘‘ بھی اُنہی سرکاری اداروں میں سے ایک ہے، جو لاکھوں محنت کشوں، مزدوروں اور اُن کے اہلِ خانہ کو مختلف سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ تو آئیے دیکھتے ہیں، یہ ادارہ کیسے کام کرتا ہے اور اس کا دائرۂ کار کیا ہے؟

پنجاب سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن، محکمہ لیبر اینڈ ہیومن ریسورس کا ایک خود مختار ادارہ ہے، جو محدود وسائل کے باوجود رجسٹرڈ افراد اور اُن کے اہلِ خانہ کو علاج معالجے کے ساتھ، مالی مراعات کی فراہمی کے لیے بھی کوشاں ہے۔ نیز، یہ کاروباری اداروں کو بھی متعدّد سہولتیں فراہم کرتا ہے۔اِس ادارے کے ساتھ اب تک تقریباً85,000 ہزار سے زاید صنعتی اور تجارتی یونٹس رجسٹر ہو چُکے ہیں، جن سے وابستہ 11لاکھ کارکنان اور اُن کے68 لاکھ سے زاید اہلِ خانہ کو مراعات مہیا کی جا رہی ہیں۔ادارے نے پنجاب بھرمیں 24بڑے، 3چھوٹے اسپتال، 50میڈیکل سینٹرز، 131 ڈسپینسریز اور 76 ایمرجینسی مراکز قائم کر رکھے ہیں۔

وہ کاروباری ادارے، جہاں پانچ یا پانچ سے زاید لوگ کام کرتے ہوں، سوشل سیکیوریٹی کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ صنعتی اور تجارتی اداروں کے مالکان اپنے ورکرز کی تن خواہ کا 6فی صد ،(جن کی سیلری 22 ہزار سے 25 ہزار روپے تک ہو)، سوشل سیکیوریٹی ڈیپارٹمنٹ میں جمع کرواتے ہیں، جس سے ورکرز کو مالی مراعات کے ساتھ، علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔کارکنان کی رجسٹریشن اور اُنھیں معاوضے کی ادائی کے لیے 20 ڈائریکٹوریٹ اور 12ذیلی دفاتر قائم کیے گئے ہیں۔ ان ذیلی دفاتر سے کنٹری بیوشن اور اداروں کی نئی رجسٹریشن کے علاوہ کارکنان اور اُن کے اہلِ خانہ کو ادارے کی پالیسیز کے مطابق مختلف نوعیت کی مالی ادائیاں بھی کی جاتی ہیں۔

ادارے میں تقریباً8000 ملازمین میڈیکل اور ایڈمن ونگ میں اپنے فرائض سَرانجام دے رہے ہیں۔ ادارے کی انتظامیہ کمشنر پنجاب سوشل سکیوریٹی، وائس کمشنر پنجاب سوشل سکیوریٹی، ڈائریکٹر جنرل ہیڈکوارٹر (جو ریکوری کے معاملات دیکھتے ہیں) اور میڈیکل ایڈوائزر پر مشتمل ہے۔ اِس ادارے کے تحت کام کرنے والے اسپتالوں میں امراضِ قلب کے مکمل علاج کے ساتھ گیما یونٹ، سی ٹی اسکین، ڈائی لیسسز، کینسر، جسمانی اسکیننگ کے لیےنیو کلیئر بلاک، چھاتی کے کینسر اور امراضِ معدہ کے علاج کی سہولت موجود ہے، جب کہ ہیپاٹائٹس کلینکس، ڈسپینسریز، جدید آلات سے لیس ایمبولینسز، جدید لیبارٹریز بھی پوری طرح فعال ہیں۔

نیز، ادارہ رجسٹرڈ کارکنان کو بوقتِ ضرورت بیرونِ مُلک علاج کی سہولت بھی مہیا کر رہا ہے۔اگر مالی مراعات کی بات کی جائے، تو اِس ضمن میں تجہیز و تکفین، ایامِ عدّت کے دَوران مالی معاونت، دَورانِ علاج روزانہ کی بنیاد پر خوراک کی فراہمی کا خرچہ، مریضوں کو اسپتال آنے جانے کا کرایہ، خواتین کارکنان کے لیے زچگی کے اخراجات، حادثے کی صُورت میں علاج معالجہ اور تاحیات پینشن کے علاوہ بھی مختلف مَد میں مالی معاونت کی جاتی ہے۔

پنجاب سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کا 2021-22 ء کے لیے19.85ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے، جس میں ورکرز اور اُن کے اہلِ خانہ کے علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے 8 ارب 90 کروڑ روپے سے زاید مختص کیے گئے ہیں۔ ورکرز کے معاوضوں کی مَد میں 53.6کروڑ روپے اور اسپتالوں، ڈائریکٹوریٹس کے میڈیکل ونگز کے لیے 1 ارب 15 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔سوشل سیکیوریٹی کنٹری بیوشنز کی مَد میں 18 ارب 89 کروڑ روپے وصول کیے جائیں گے۔

واضح رہے، ادارہ اپنے تمام اخراجات کنٹری بیوشنز ہی سے پورے کرتا ہے۔حال ہی میں کاروبای افراد کو سہولت مہیا کرنے کے لیے ایمنیسٹی اسکیم بھی متعارف کروائی گئی، جس کے ذریعے نادہندگان کو 5.5ارب روپے کا ریلیف دیا گیا۔

ایمنیسٹی اسکیم کے ساتھ سیلف اسیسمنٹ اسکیم کا بھی اعلان کیا گیا۔ مذکورہ ترمیم سے پہلے ایسے صنعتی اداروں کو، جو سیلف اسیسمنٹ اسکیم کا انتخاب کرتے تھے، 2سال کے لیےانسپیکشن یا ریکارڈ چیکنگ سے استثنا حاصل تھا۔ حکومتِ پنجاب کی جانب سے دی جانے والی نئی سہولت کے بعد اب ادارہ سوشل سیکیوریٹی کے کسی بھی اہل کار کو سیلف اسیسمنٹ اسکیم کا انتخاب کرنے والے ادارے میں ریکارڈ چیکنگ کی غرض سے داخل ہونے کا اختیار نہیں۔ مزید یہ کہ مذکورہ سیکشن میں ترمیم کے بعد جو ادارے سیلف اسیسمنٹ کا انتخاب کریں گے، اُن میں سے20 فی صد اداروں کی سالانہ ریکارڈ چیکنگ کی جاسکے گی، جن کا انتخاب قرعہ اندازی سے ہوگا۔

مذکورہ ترامیم سے پہلے ایسے صنعتی یا کاروباری ادارے، جو سیلف اسیسمنٹ اسکیم کا انتخاب کر چُکے تھے، اُن کے رجسٹرڈ کارکنان بھی 40 روپے بذریعہ آجر کنٹری بیوشن کی مَد میں جمع کروانے کے پابند تھے، اب یہ پابندی آرڈی نینس کے سیکشن) 20A(3 میں ترمیم کے ذریعے ختم کر دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں تحفّظ یافتہ کارکنان کو 380ملین کا ماہانہ ریلیف دیا گیا۔ پنجاب سوشل سیکیوریٹی ایمنیسٹی اسکیم کے تحت1ارب 32کروڑ روپے سے زاید کی ریکوری کی گئی، جب کہ پنجاب حکومت کی جانب سے اِس اسکیم کے تحت کاروباری اداروں کو 5.5ارب روپے کا ریلیف دیا گیا، جس کے تحت رجسٹرڈ 11,890یونٹس نے سوشل سیکیوریٹی کی مد میں بقایاجات ادا کیے۔

پیسی کے پنجاب بھر میں قائم 20ڈائریکٹوریٹس نے مجموعی طور پر 1ارب 32کروڑ 38 لاکھ19ہزار 990 روپے کی ریکوری کی۔ جن اداروں نے رقم جمع نہیں کروائی، اُن کے خلاف پنجاب لینڈ ریونیو ایکٹ1967 ء کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ ادارے نے کورونا وبا کے دَوران بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔اپنے اسپتالوں میں101 قرنطینہ رومز اور 475بستروں پر مشتمل آئسولیشن وارڈز قائم کیے ، جب کہ اسپتالوں میں 31وینٹی لیٹرز اور 153 کارڈیک مانیٹر فراہم کیے گئے۔ اسپتالوں اور میڈیکل آئوٹ لیٹس میں تھرمل اسکینرز کی دست یابی یقینی بنائی۔عملے کو پی پی ای اور ماسک فراہم کیے گئے۔

کورونا کا پھیلائو روکنے کے لیے معمول کے مریضوں کو 2ماہ کی ادویہ کی فراہمی یقینی بنائی گئی تاکہ اُنھیں بار بار اسپتال نہ آنا پڑے۔ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ (اسپشیلائزڈ ہیلتھ کیئراینڈ میڈیکل ایجوکیشن)اور پنجاب سوشل سیکوریٹی کے درمیان ایم او یو سائن ہوا، جس کے تحت پنجاب سوشل سیکوریٹی نے محکمۂ صحت کے لیے ضروری سازوسامان اور دیگر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی۔ سوشل سیکوریٹی اسپتال، گوجرانوالہ میں10 قرنطینہ رومز اور 90آئسولیشن بیڈز، جب کہ سیال کوٹ میں05 قرنطینہ رومز اور 60 آئسولیشن بیڈز محکمۂ صحت کو دئیے گئے۔محکمۂ صحت کی جانب سے لاہور میں کورونا مریضوں کے لیے سوشل سیکوریٹی اسپتال، ملتان روڈ کا انتخاب کیا گیا، جہاں 9قرنطینہ رومز اور 50 آئسولیشن بیڈز فراہم کیے گئے۔

ادارے نے یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی مدد سے ٹیلی میڈیسن سروس بھی متعارف کروائی۔ 1966 ء سے2012 ء تک ادارہ کے 14 اسپتال تھے۔ 2012ء سے2018 ء تک یہ تعداد 16 تک پہنچ سکی، جب کہ 2018 ء سے 2021 ء تک اسپتالوں کی تعداد بڑھ کر23تک ہو گئی۔یعنی 3 سالوں میں 7 نئے اسپتالوں کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ سرگودھا، تونسہ، ڈیرہ غازی خان، پتوکی، فیصل آباد، لاہور اور ملتان میں 7نئے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال تعمیر کیے جا رہے ہیں۔نیز، اسپتالوں کے معاملات میں بہتری لانے کے لیے اسپتال مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔

دفتر ی امور کی بہتری، ملازمین کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈاور کمپیوٹرائزڈ سیلری سلپ کے لیے الیکٹرانک فائل آفس آٹو میشن سسٹم (ای فوس) ہیومن ریسورس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایچ آر ایم آئی ایس) اور سیلری مینجمنٹ سسٹم بھی تیار کے گئے ہیں۔ 2012ء کے بعد پہلی بار اسپتالوں کے لیے 32کروڑ کی لاگت سے سامان کی خریدا جا رہا ہے۔ اسپتالوں میں گریڈ 1 سے 16 تک کے تمام ملازمین کے لیے یونی فارم اور ایمپلائمنٹ کارڈ پہننا لازم قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹرز یا عملے کے ٹی بریک وغیرہ پر کاؤنٹر اور دروازے پر اوقاتِ کار آویزاں کرنا ضروری ہوگا۔ ادارے کی تاریخ میں پہلی بار ٹریننگ پالیسی لاگو کی گئی ہے، جب کہ ملازمین کے پروموشن کیسسز ترجیحی بنیادوں پر نمٹائے جا رہے ہیں۔اب تک میڈیکل کیڈر میں269 افراد کو اگلے گریڈز میں ترقّی دی جا چُکی ہے۔

علاوہ ازیں، عملے کی کمی پوری کرنے کے لیے نئی بھرتیاں بھی کی جا رہی ہیں۔پنجاب سوشل سکیوریٹی کے تحت لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں3 میڈیکل کالجز قائم کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔ ادارے کی گورننگ باڈی نے حالیہ اجلاس میں سوشل سکیوریٹی اسپتالوں کے مختلف پرائیویٹ کالجز اور یونی ورسٹیز کے ساتھ الحاق کی منظوری دی۔ گھریلو ملازمین ہمیشہ ہی سے نظرانداز کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم، اب مُلکی تاریخ میں پہلی بار انھیں بھی دیگر مزدوروں کی طرح صحت اور سوشل سکیوریٹی کی سہولتیں پہنچانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔اِن کی رجسٹریشن کے لیے مہم کا آغاز کیا گیا، جب کہ وہ خود بھی ایپ کے ذریعے رجسٹرڈ ہو سکتے ہیں۔ 31ہزار سے زاید گھریلو ملازمین کی رجسٹریشن مکمل کی جاچُکی ہے۔

اداروں کی رجسٹریشن کیسے ہوتی ہے؟

ایسے تمام نجی ادارے جہاں پانچ یا پانچ سے زاید افراد ملازم ہوں، پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیوریٹی کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں اور اُنھیں قانونی طور پر خود کو اِس ادارے کے پاس رجسٹر کروانا ضروری ہے۔ اِس مقصد کے لیےادارے نے بھی فیلڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹرز/ انسپکٹرز تعیّنات کر رکھے ہیں، جو فیلڈ میں سروے کرکے زیادہ سے زیادہ اداروں کی رجسٹریشن یقینی بناتے ہیں تاکہ مزدوروں اور اُن کے اہلِ خانہ کے حقوق کا تحفّظ کیا جاسکے۔

اس کے علاوہ، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز ادارے کی کنٹری بیوشن کی وصولی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سے ادارے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمّے داری سمجھتے ہوئے بھی متعلقہ سوشل سیکیوریٹی آفسز سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنے ورکرز کا تحفّظ یقینی بناتے ہیں۔اگر کوئی ادارہ رجسٹریشن نہیں کرواتا،تو اُس پر جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔جب کوئی ورکر رجسٹرہوتا ہے، تو اس کے بیوی بچّوں اور والدین کو سوشل سیکیوریٹی کی جانب سے علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

مزدوروں کو بہترین طبّی سہولتیں فراہم کرنا ہمارا مشن ہے، کمشنر سوشل سیکیوریٹی

کمشنر سوشل سکیوریٹی، سیّد بلال حیدر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا،’’ ادارہ طبّی سہولتوں اور سوشل سیکیوریٹی کنٹری بیوشن میں بہتری اور اضافے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔اسپتالوں اور ڈسپینسریز کی اَپ گریڈیشن، ڈاکٹرز اور دیگر عملے کی کمی پوری کرنا، جدید آلات کی فراہمی، جدید لیبارٹریز کا قیام، ڈیٹا کی کمپیوٹرائزیشن، مزدور کارڈ، عملے کی تربیت اور ملازمین کی بہتری میری اوّلین ترجیحات ہیں۔مَیں صنعتی اور تجارتی اداروں کے مالکان سے درخواست کروں گا کہ وہ’’ صحت مند، خوش حال مزدور‘‘ کے مشن میں ہمارا ساتھ دیتے ہوئے اپنے ورکرز کی رجسٹریشن کروائیں اور اپنی کنٹری بیوشن وقت پر جمع کروا کے قانونی، اخلاقی ذمّے داری پوری کریں۔‘‘

اُنہوں نے بتایا کہ’’ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار11لاکھ مزدوروں کے لیے’’ پنجاب مزدور کارڈ‘‘ کا اجراء کیا جا رہا ہے اور اُن کے بینک اکاؤنٹس کھولے جارہے ہیں۔اِس کارڈ سے مزدوروں کو11 اقسام کی سہولتیں میّسرآئیں گی۔یہ بطور اے ٹی ایم کارڈ بھی استعمال ہو سکے گا۔ ورکرز کو دُکانوں اور اسٹورز پر نہ صرف کارڈ سوائپ کرنے کی سہولت میّسر ہوگی، بلکہ وہ 150سے زاید تجارتی/کمرشل پوائنٹس پر 5 سے 30 فی صد تک رعایت بھی حاصل کرسکیں گے۔مستقبل میں اسے صحت سہولت کارڈ اور حکومتِ پنجاب کی مختلف قرضہ اسکیمز کے ساتھ بھی منسلک کیا جائے گا۔

اِس اقدام کا مقصد مزدوروں کو مالی طور پر مستحکم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، پنجاب بھر میں بینیفٹ موبائل اپیلی کیشن کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ یہ ایپ کرپشن کے خاتمے اور شفّافیت کے فروغ کے لیے ایک اہم قدم ہے۔موبائل اپیلی کیشن سے رجسٹرڈ ورکرز کو دفاتر کے غیر ضروری چکروں سے چھٹکارا مل جائے گا۔

وہ اپنی درخواستیں مکمل کوائف کے ساتھ ایپ پر اَپ لوڈ کریں گے، جس کے 10دن کے اندر اُنھیں بذریعہ بینک اکاؤنٹ رقوم مل جائے گی۔یہ اپیلی کیشن رواں برس 4جون کو لانچ کی گئی اور اب تک 250 مزدوروں کو مالی فوائد فراہم کیے جاچُکے ہیں۔ اِس سے پہلے مالی ادائی کے لیے ورکرز کو کئی کئی سال انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اِس اپیلی کیشن پر صنعتی، گھریلو ملازمین اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے افراد بھی خود کو رجسٹرڈ کروا سکیں گے۔‘‘