پی ٹی آئی کیلئے ایک اور این آر او!

November 21, 2021

جوں جوں وقت گزر رہا ہے عمران خان کے ستارے گردش میں آرہے ہیں اور یہ سب کچھ باہر سے نہیں، خود پی ٹی آئی کے ناعاقبت اندیش، جو مشرف حکومت کو گرانے کے ذمہ دار تھے، وہی سیاسی غلطیاں عمران خان سے کروا رہے ہیں۔ خود تو ڈٹ کر کھا پی رہے ہیں مگر حامی اور کندھا دینے والے ان کو بُرے لگ رہے ہیں۔ ایک طرف لانے والوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، ان کی مرضی کا خیال رکھنے کے بجائے ان سے دو دو ہاتھ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو دوسری جانب ق لیگ اور ایم کیو ایم سے بےرُخی برت رہے ہیں۔ جب ان کے ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ان کو منا کر لے آتے ہیں مگر اس مرتبہ ان سب نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اپوزیشن سے مل کر پی ٹی آئی کا دھڑن تختہ کرنے ہی والے تھے کہ آرڈر آگیا، خبردار ابھی وقت نہیں آیا ، جائو اور چپ چاپ حمایت میں ووٹ ڈال آئو ورنہ... آگے سب سمجھدار ہیں اور اس طرح این آر او نہ دینے والے عمران خان سے زبر دستی این آر او دلوا دیا گیا۔ رہی سہی کسر نئی دریافت EVM نے پوری کردی، اس طرح گنتی پوری ہو گئی اور اپوزیشن منہ دیکھتی رہ گئی۔

10دن قبل حکومت نے قومی اسمبلی میں 2بل پیش کئے اور دونوں میں شکست ہوئی، اس کے مقابلے میں اپوزیشن نے ایک بل پیش کیا اس بل میں حکومت کو 104کے مقابلے میں 117ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ اس شکست کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مؤخر کردیا گیا۔ پارلیمانی اجلاس میں بھی ان کے اتحادی ناراض نظر آرہے تھے مگر اچانک 3روز پہلے دوبارہ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر لیا گیا جس میں حکومت نے ایک ہی دن میں 33بلز منظور کروا لیے۔ تحریک انصاف حکومت 3اکتوبر 2018سے 9نومبر 2021تک قریباً 37مہینوں کے دوران قومی اسمبلی سے 110 بل منظور کرواچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایوان زیریں نے اوسطاً ہر 10دن بعد ایک بل منظور کیا۔ ان میں سے دس پہلے پارلیمانی سال میں منظور کئے گئے۔ 30بل دوسرے پارلیمانی سال اور 60تیسرے پارلیمانی سال میں منظور کیے گئے۔ 10مسودات قانون رواں چوتھے پارلیمانی سال میں پیش کئے گئے ہیں۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں ہنگامے کے باوجود عمران خان کی حکومت نے ہم خیال جماعتوں کی حمایت سے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے بھارتی جاسوس کلبھوشن کو نظرثانی کی اپیل کا حق دینے کابل، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری، ایس بی پی بینکنگ سروسز کارپوریشن ترمیمی بل، اینٹی ریپ (تفتیش اور ٹرائل) بل، کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ کمپنیز(ترمیمی) بل، دی یونیورسٹی آف حیدرآباد بل، زرعی، تجارتی اور صنعتی مقاصد کیلئے قرضوں کا ترمیمی بل، پورٹ قاسم اتھارٹی ترمیمی بل اور سب سے اہم گوادر پورٹ اتھارٹی ترمیمی بل 2021وغیرہ منظور کرا لیے۔ ایسا محسوس ہوا پی ٹی آئی کو آئندہ بھی جتوانے کا سائنٹفک طریقہ ایجاد کر لیا گیا ہے۔ یہ فی الحال واضح نہیں ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کس کس کو نتھی کیا جائے گا۔ فی الحال پی ڈی ایم میں دراڑیں تو ڈلوا دی گئیں ہیں، پی پی پی کے ورکنگ صدر آصف علی زرداری پی ڈی ایم کا مشروط ساتھ دینے کا وعدہ تو کر رہے ہیں مگر مولانا فضل الرحمٰن ان کے ماضی کے رویوں سے خوش نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن میں دراڑیں ڈل چکی ہیں۔ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کا بیان بھی گو کہ بقول اعترازاحسن مشکوک ہے کیونکہ موصوف میاں نواز شریف کی پارٹی کے نہ صرف عہدیدار رہ چکے ہیں بلکہ خود ان کے وکیل کی حیثیت سے بھی ان کے مقدمے لڑ چکے ہیں۔ دوسری طرف اگلے الیکشن کے ایسے مہرے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی بھی ایک کلپ وائرل ہوئی ہے جس میں الطاف حسین نے انکشاف کیا ہے کہ کچھ خفیہ ہاتھ ان سے ملاقات کر کے گئے ہیں اور وہ اپنا معافی نامہ اردو انگریزی میں دے چکے ہیں کہ جو الفاظ انہوں نے پاکستان کے خلاف قوم کی مخدوش حالت دیکھ کر کہے تھے، اس پر وہ شرمندہ ہیں اور غیر مشروط معافی کے طلب گار ہیں جس سے ایم کیو ایم کے دھڑوں میں بھی بے چینی پھیل گئی ہے۔

عوام مہنگائی کے ہاتھوں پر یشان ہیںاورپی ٹی آئی میں بھی دھڑے بازی شروع ہو چکی ہے ایک دھڑا پشاور، دوسرا ملتان تیسرا لاہور کا بنا ہوا ہے لیکن عمران خان ان دھڑوں کو یکجا کرنے کے بجائے اپوزیشن کے پیچھے گزشتہ ساڑھے 3سال سے پڑے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ ابھی تک کوئی نہیں نکلا نہ ہی کوئی ریکوری ہوئی اور نہ ہی کسی کو کوئی سزا۔ عوام پی ٹی آئی حکومت کی مدت ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری صاحب نے بھی اب توکہہ دیا ہے کہ یہ حکومت اب زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ قارئین جب سے موجودہ حکومت آئی ہے جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں اس کو 90فیصدمیں شکست ہوئی ہے۔ اب جو کنٹونمنٹ بورڈز الیکشن ہو ئے ہیں یہ الیکشن حکومتی جماعت کیلئے لمحہ فکریہ ہیں اور مستقبل کا واضح تعین کرتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی تاویلیں اور جواز پیش کئے جائیں مگر سچ یہی ہے کہ تبدیلی سرکار جیت کا سہرا سجانے میں اتنی مگن رہی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ عوام نئے مسیحا کی تلاش میں بھٹک چکے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہو چکا ہے کہ جمہوریت کے نام پر وطن عزیز ایسے سیاستدانوں کے نرغے میں ہے جنہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)