عاصمہ جہانگیر کی بے مثل جدوجہد

November 27, 2021

پاکستان کی تاریخ میں جب بھی باہمت خواتین کے کردار پر بحث ہوگی تو جہاں محترمہ بےنظیر بھٹو کا تذکرہ اِس جدوجہد کے حوالے سے نمایاں تر ہوگا کہ انہوں نے آمریت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے صعوبتیں اٹھائیں، اپنی ٹوٹی پھوٹی بدحال پارٹی میں نئی روح پھونکی اور یوں کامیابی کا سفر طے کرتے ہوئے اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کیا۔

20ویں صدی کے آخری برسوں میں جب آمریت نے نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی مضبوط جمہوریت پر شب خون مارا، انہیں پابندِ سلاسل کر دیا تو ان کی شریکِ حیات محترمہ کلثوم نواز نے جس بہادری سے احتجاجی تحریک کی قیادت کی یا آج ان کی بیٹی محترمہ مریم نواز جس ولولہ انگیز جرأت و حوصلے سے حاکمانہ سوچ کا مقابلہ کر رہی ہیں

یہ ساری جدوجہد پاکستان میں اولوالعزم خواتین کی تاریخ کا حصہ ہے اور نئی تاریخ بننے جا رہی ہے۔

ایک بہادر و دلیر بچی ملالہ یوسف زئی کے پُرعظمت کردار سے کون انکار کر سکتا ہے، جو قدامت پسندی و قبائلی جبر کے خلاف سچائی کی آواز بن کر ابھری، جب بچیوں کے اسکول قدامت پسندی کی جبری قوتیں بم دھماکوں سے اڑا رہی تھیں، تب بچیوں کی تعلیم کے مساوی حق کا نعرہ بلند کرتی ملالہ کی آواز بڑی بےباکی سے گونجی، جسے خاموش کرنے کیلئے اہل جبر نے معصوم بچی پر گولیاں برساتے ذرا شرم محسوس نہ کی اور پھر یہ بچی پوری دنیا میں نہ صرف تعلیم کے حوالے سے بلکہ حقوقِ نسواں کیلئے پاکستان کی نئی پہچان بنی۔

دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ خاتون کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے اپنے وطن کا نام روشن کیا۔

پاکستان میں اولوالعزم خواتین کی جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے تاریخ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے ولولہ انگیز کردار کو کیسے فراموش کر سکتی ہے؟ یہ دبنگ خاتون بلاشک و شبہ پاکستانی خواتین کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہوش سنبھالنے سے لے کر یہ عظیم خاتون جب تک زندہ رہیں، جبر و آمریت کے خلاف تیز تلوار ثابت ہوئیں۔

جہاں مردوں کا پِتہ پانی ہوتا تھا، وہاں یہ خاتون چٹان کی طرح کھڑی ہو کر لاکھوں انسانوں کیلئے ڈھارس بندھاتی۔ عرض کیا ’’بی بی آپ کے دشمن بہت زیادہ ہیں، تھوڑی احتیاط برتا کریں‘‘ بولیں ’’افضال ریحان صاحب! آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ مجھے مشہور نظریے کی بجائے تلخ سچائی کتنی زیادہ عزیز ہے، جب تک زندہ ہوں، جبر کے خلاف لڑوں گی خواہ وہ کسی طبقے کا بھی ہو‘‘۔

آج پوری قوم کے سامنے ہے، وہ مرنے کے بعد بھی ہر نوع کی آمریت کے بالمقابل آئین، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کا استعارہ بنی کھڑی ہیں۔ ان کے نام سے ہر سال جو کانفرنس منعقد کروائی جاتی ہے، وہ ان کے عظیم آدرشوں کا مظہر ہے۔

منیز ےجہانگیر اور عاصمہ بی بی کے دیگر چاہنے والوں کیلئے یہ امر کس قدر باعثِ مسرت ہے کہ ان کے جانے سے جو ایک نوع کی محرومی و مایوسی تھی، یہ کانفرنس امید کی ایک نئی کرن بن جاتی ہے۔ ان کے قریب رہنے والے ادراک کر سکتے ہیں کہ اگر آج وہ خود ہمارے درمیان موجود ہوتیں تو اس تبدیلی کے جبرکے حوالے سے کیاگفتگو کر رہی ہوتیں۔

اس سال عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ہونے والی تقاریرمیں اگرچہ اُن کے عقیدت مند علی احمد کرد کی تقریر سب سے زیادہ موضوع بحث بنی تاہم تین مرتبہ منتخب ہونے والے عوامی قائد نے اپنی تقریر میں عاصمہ بی بی سے اپنے قریبی تعلق کا بھی حق ادا کر دیا

یوں لگ رہا تھا کہ بی بی صاحبہ نے اس دنیا سے جاتے ہوئے اس شخصیت سے محض آخری گفتگو ہی نہیں کی تھی بلکہ اپنی فکر اور سوچ کی روشن چنگاری بھی ادھر منتقل کر دی تھی۔ ’’آج ہم تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں، 22کروڑ عوام کو جوابات درکار ہیں، کیا سوالات کرنے والوں کی زبانیں کھینچنے سے مسائل حل ہوں گے؟

یہاں آئین ٹوٹتا ہے، من پسند لوگوں سے مرضی کے فیصلے لیے جاتے ہیں، آمروں کو قانونی حیثیت ملتی ہے، سیاسی انجینئرنگ کی فیکٹریاں لگائی جاتی ہیں، منتخب حکومتوں کے خلاف دھرنے کروائے جاتے ہیں

حکومتیں بنوائی اور گرائی جاتی ہیں‘‘..... تقدس کا پیمانہ کس خوبصورتی سے بیان کیا گیا کہ جو آئین کی پاسداری کرے، جو آئین کی حرمت کے سامنے سرتسلیم خم کرے وہی عزت کے قابل ہے۔

ادراک کیا جائے تو آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے بلند ہونے والی یہ آوازیں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی دبنگ جدوجہد ہی کا پرتو ہیں، جس پر وہ عمر بھر ڈٹی رہیں مگر روایتی آمریت کے پروردہ لوگوں کیلئے انہیں برداشت کرنا ممکن نہ ہوا، حالانکہ اسٹیٹس کو کی تقاریر پر بھی یہاں کوئی بندش نہ تھی

جنہوں نے کرم فرمائوں کی ترجمانی کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، جب طرفین کا موقف آمنے سامنے آ جائے تو پھر فیصلے کا حق عوام کے اجتماعی ضمیر کو حاصل ہو جاتا ہے۔ اتنی سی بات اگر اہل جبر کو سمجھ آ جائے تو پھر رونا کس بات کا ہے؟