سندھ کے ساتھ دریائی ناانصافیاں

November 30, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

آج کے کالم میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ یہ ’’تین طرفہ‘‘ فارمولا ہے کیا اور یہ کہ یہ فارمولا 91 ء کے پانی کے مطابق وجود میں لایا گیا ہے یا اس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور توہین کی گئی ہے۔ اس نئے فارمولا کے تحت پانی کی تقسیم اس طرح ہوتی ہے کہ کے پی اور بلوچستان پانی کی کمی میں حصہ دار نہیں ہوتے،اس قسم کی تقسیم فقط پنجاب اور سندھ کے درمیان ہوتی ہے۔ ارسا یہ تو مانتی ہے کہ 91 ء کا معاہدہ ایک مقدس دستاویز ہے مگر ’’چونکہ اس کی ایک شق دوسری شق کے ساتھ ملی ہوئی ہے اس معاہدے کی کسی بھی ایک شق کا اکیلے جائزہ نہیں لیا جاسکتا اور نہ کسی بھی ایک شق پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ارسا کے مطابق سندھ فقط پیرا 2 کے تحت طے کئے گئے حصوں پر اپنا حق سمجھتا ہے جبکہ سندھ پیرا 2 سے دوسری شقوں کے تعلق کو اہمیت نہیں دیتا۔ آیئے ہم پانی کے معاہدے کی شق 2 کا جائزہ لیں۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ :

"The record of actual average

"Uses system's" uses for the periods of 1977-82 would form the guidelines for developing a future regulation pattern. These ten daily uses would be adjusted pro-rata to correspond to the indicated Seasonal allocations of the different canal systems and would form the basis for sharing seasonal shortages and surpluses on "All Pakistan" basis."

اس شق میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ sharing seasonal shortages and surpluses on "All Pakistan" basis." کیا پیرا 2 کا یہ فارمولا اس شق کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور توہین نہیں؟ کیونکہ پیرا 2 کے اس فارمولا کے تحت پانی کی تقسیم All Pakistan کی بنیاد پر نہیں ہورہی ہے۔ ارسا کا موقف ہے کہ پانی کی موجودہ دستیابی کی بنیاد پر معاہدے کی پیرا 2 کے تحت پانی کی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ ارسا کے مطابق پیرا 2 پر عملدرآمد کے لئے 12 ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی کی ضرورت ہے، ان کے مطابق ہمارے پاس 102 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہے۔ ارسا کے مطابق ڈیموں اور پانی کے ذخیروں کے بغیر اگر سندھ کے مطالبہ پر پیرا 2 کے تحت پانی کی تقسیم ہوگی تو پنجاب کو 4 ملین ایکڑ فٹ پانی کا نقصان ہوگا۔ ارسا کا کہنا ہے کہ سندھ نے ’’تین طرفہ‘‘ فارمولے پر اعترض کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کی کونسل میں شکایت کی ہے،اب کونسل کے فیصلے کا انتظار ہے۔ ارسا کے مطابق 91 ء کے پانی کے معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے لئے پانی کے نئے ذخیروں اور ڈیموں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کا صرف 10 فیصد پانی ذخیرہ ہوتا ہے جبکہ دنیا بھرمیں میں دریائوں کا40 فیصد پانی ذخیرہ ہوتا ہے۔ ارسا کے مطابق نئے ڈیم نہ بننے اور ڈیموں میں مٹی کی وجہ سے پانی کے ذخیرے کی گنجائش 13 فیصد کم ہوجاتی ہے۔ ارسا کی یہ دلیل سننے کے بعد یہ بات کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے کہ سارا زور پنجاب میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے کے لئے دیا جارہا ہے۔ یہ دلیل دیتے وقت ارسا اور پنجاب اس بات کو کیوں نوٹ نہیں کرتے کہ سندھ کو کتنا پانی فراہم کیا جارہا ہے اور یہ کہ کیا کوٹری بیراج تک اتنا پانی پہنچ رہا ہے جتنا پانی معاہدے کے تحت کوٹری تک پہنچنا چاہئے؟ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ایک طرف ڈیموں میں مٹی جمع ہونے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کم ہونے کی شکایت کی جاتی ہے جبکہ اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ تربیلا میں اتنی زیادہ مٹی جمع ہونے کے باوجود تربیلا ڈیم کی صفائی کیوں نہیں کی جاتی اور ایسے اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے جن کی وجہ سے تربیلا ڈیم میں کم سے کم مٹی جمع ہو؟ کیا ارسا، پنجاب اور مرکزی حکومت اس بات کو بھول گئے کہ تقریباً 15 سے 20 سال پہلے جب حکومت پاکستان کی دعوت پر برطانیہ سے آبپاشی کے ماہرین کی ایک ٹیم آئی تھی جس نے تربیلا ڈیم کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد ایک رپورٹ تیار کرکے حکومت پاکستان کے حوالے کی۔ اس رپورٹ میں ان اقدامات کی تفصیل سے سفارش کی گئی جن کے نتیجے میں تربیلا سے مٹی کا خاتمہ ہوجائے گا مگر افسوس کہ اس رپورٹ پر عملدرآمد تو نہیں کیا گیا الٹا اس رپورٹ کو گم کردیا گیا اور آج تک یہ رپورٹ ظاہر نہیں کی گئی، اس کا مطلب کیا ہوا؟ اسی عرصے کے دوران ملک کے کچھ پانی کے ماہرین نے رائے ظاہر کی تھی کہ کوشش یہ ہے کہ تربیلا ڈیم میں اتنی مٹی جمع ہوجائے کہ برائے نام پانی تربیلا سے نیچے آسکے۔ ان ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ شایدنیت یہ ہے کہ تربیلا ڈیم اس طرح دفن ہوجائے تاکہ بعد میں کالا باغ ڈیم بنانے کا کام شروع کیا جاسکے۔ (جاری ہے)