صوبے ضلعوں سے کیوں ڈرتے ہیں؟

December 02, 2021

انسانوں کو ڈرنا صرف اللہ تعالیٰ سے چاہئے۔ حقیقت مگریہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا سب سے ڈرتا ہے۔کہیں آئی ایم ایف کا ڈر ہے۔ کہیں عالمی بینک کا۔اسلام آباد پنڈی سے ڈرتا ہے۔ پنڈی کو اسلام آباد سے کھٹکا لگا رہتا ہے۔وزیر اعظم ہائوس کو وزرائے اعلیٰ ہائوسوں سے خدشات لاحق رہتے ہیں۔اسلام آباد، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان سے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔وفاق صوبوں کے پر کاٹنے کی ترکیبیں سوچتا ہے۔ صوبے اپنی خود مختاری کے لیے واویلا بلند رکھتے ہیں لیکن صوبے ضلعوں کو خود مختاری نہیں دینا چاہتے۔ نہ جانے کس خوف میں الجھے رہتے ہیں۔پنڈی کو ضلعوں میں با اختیار حکومتوں کی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے۔ ایوب خان، جنرل ضیا، مشرف کے دَور میں بااختیار بلدیاتی ادارے تاریخ نے دیکھے۔پارلیمنٹ میں سینیٹ میں صوبوں کو مساوی نمائندگی دی گئی ہے لیکن اس مساوی نمائندگی کو کمزور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس طلب کرلیے جاتے ہیں۔

سندھ، پنجاب، بلوچستان، کے پی، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان سب ایک دوسرے سے بد گمان رہتے ہیں۔ ایک انجانا خوف چھایا رہتا ہے۔ اکثریت کو اکثریت کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اکثریت سے اختیار چھیننے کے لیے برتا جاتا ہے۔ اسمبلیوں میں اکثریت اپوزیشن سے خوف زدہ رہتی ہے۔ البتہ جب اپنی تنخواہوں، مراعات میں اضافہ کرنا ہو تو سب گھل مل جاتے ہیں۔ ایسی بد گمانی خدشات اور خوف کے عالم میں جمہوریت بے چاری گھٹنوں میں سر دیے اسپیکر کے چیمبر میں بیٹھی رہتی ہے۔یہ سب کچھ 1988 سے ہورہا ہے۔ جمہوریے، اقتدار میں شراکت پر ہی مطمئن ہیں۔ اس کے لیے کروڑوں اربوں خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ ایک نئی فصل انتخابیوں کی آگئی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی انہیں لالچ بھری نظروں سے دیکھتی ہے۔ ان کی خوشنودی کے لیے ان کے ناز اٹھاتی ہے۔ یہ ہر موسم میں حلف اٹھاتے۔ موسمی پھلوں سے لدے پھندے سامنے آتے ہیں۔

برسوں بلکہ صدیوں کی تحقیق اور تجربے کے بعد جمہوریت کو ایسا طرز حکومت تسلیم کیا گیا ہے جس سے اکثریت کی تمنّائوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ انسانی زندگی آسان ہوتی ہے۔ ملک ترقی کرتے ہیں۔ ایک سسٹم وجود میں آجاتا ہے یہ سسٹم نہ صرف ملکی سطح پر ہوتا ہے بلکہ صوبائی نظام بھی اسی سے چلتا ہے۔ شہر اور قصبے بھی اس کے دم سے باغ بہار رہتے ہیں۔ لیکن ہمارا معاملہ مختلف ہے۔ ہم جمہوریت کو اپنے مسلک، اپنے قبائلی طور طریقوں کے مطابق تراشتے رہتے ہیں۔ مرکز اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے لیے سارے اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔ اب پورا اقتدار منتقل نہیں کیا جاتا۔ سیکورٹی اور خارجی امور منتخب افراد کے ہاتھ میں نہیں دیے جاتے۔ منتخب افراد اس کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ منتخب افراد اس محرومی کا بدلہ صوبوں سے لیتے ہیں۔ صوبوں کو جب پورے اختیارات نہیںملتے تو وہ ضلعوں شہروں کو بھی پورے محکمے نہیں دیتے۔

سندھ میں صورت حال بالکل ہی مختلف ہے۔ یہاں نسلی اور لسانی فاصلے بہت زیادہ ہیں۔ ماضی میں یہاں ایک دوسرے سے خوف میں ایسے ایسے تجربات کیے گئے کہ زبانیں محبت کی ترجمان بننے کی بجائے سم قاتل بن گئیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جس شہر میں سندھ کا دارُالحکومت ہے۔ وہاں اکثریت دوسری زبانیں بولنے والوں کی ہے۔ امن و امان تو اللہ کے فضل سے ہے۔ اب فسادات نہیں ہوتے۔ علیحدگی کی تحریکیں نہیں چل رہی ہیں۔ الگ صوبہ بنانے کی آوازیں بھی بلند نہیں ہورہیں لیکن سندھ اسمبلی میں اکثریت اقلیت سے ڈرتی ہے۔ اپنے ہی شہروں اور ضلعوں کو اختیارات نہیں دینا چاہتی۔ مضبوط مرکز کے خلاف جس صوبے میں سب سے زیادہ آوازیں بلند ہوئیں۔ جان تک کی قربانیاں دی گئیں۔ وہاں مضبوط سندھ حکومت کے مضبوط صوبائی مرکز کے لیے مسلسل قانون سازی ہورہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی یہ تو روایت رہی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات سے اسی طرح گریز پا رہتی ہیں جیسے فوجی حکومتیں عام انتخابات سے۔ اب جب سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات پر زور دے رہی ہے تو سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کے مالی اختیارات اپنے پاس رکھنے کے لیے قانون بنانے جارہی ہے۔ سندھ اسمبلی کے ارکان اکثریت کے بل بوتے پر ضلعی جمہوریت پر صوبائی آمریت مسلط کررہے ہیں۔ وزیرا علیٰ سندھ تو اپنے اختیارات کے لیے وزیر اعظم کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کراچی کے میئر کو وہ بے دست و پا چاہتے ہیں۔ حیدر آباد، سکھر، میرپور خاص، لاڑکانہ، جیکب آباد، ٹھٹھہ اور دوسرے ضلعوں کے میئروں یا چیئرمینوں کو سندھ سیکرٹریٹ کا دست نگر رکھنا چاہتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں سے سڑکیں بھی چھین لی ہیں، اسکول بھی، پانی کی تقسیم بھی، کچرا بھی اور بہت کچھ۔ صرف رسمی طور پر کے ایم سی ہوگی۔حیدر آباد، سکھر کی میونسپل کارپوریشنیںاور میونسپل کمیٹیاں وزیر اعلیٰ آمر مطلق بن کر ان ضلعوں کو جو چاہیں گے دیں گے۔ وزر بلدیات کو بھی شاہی اختیارات حاصل رہیں گے۔ سندھ کی مخصوص لسانی نسلی صورت حال کے تناظر میں یہاں تو اضلاع کو معمول سے زیادہ اختیارات دے کر یہاں کی ضلعی اکثریت کو مطمئن اور فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا ماضی اور تلخیاں بھول کر سندھ کی فضائوں میں گھل مل جائیں اور اضلاع میں روزگار، تعلیم اور زندگی کی آسانیاں اسی طرح فراہم کریں۔ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں۔ اکیسویں صدی میں سندھ کے شہروں میں اٹھارویں اور انیسویں صدیاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ 74 سال بعد تو ان انصاروں اور مہاجرین کے درمیان فاصلے اور اجنبیت ختم ہونی چاہئے تھی۔ مگر اب یہ دونوں پہلے سے زیادہ اجنبی ہیں۔ قیام پاکستان کی ابتدا میں باہر سے آنے والوں نے زمین کے مقامی بیٹوں سے جو سلوک کیا تھا۔ اب زمین کے بیٹے وہی حسن سلوک ان 74سال پہلے آنے والوں کی اولادوں سے کررہے ہیں۔ وقتی طور پر تو سندھ حکومت با اختیار ہو جائے گی لیکن دلوں میں حکومت نہیں کرسکے گی۔ ایسی قانون سازیاں ہی پھر نفرتوں اور بالآخر علیحدگی کی تحریکوں کو جنم دیتی ہیں۔ الگ صوبے کے مطالبے زور پکڑتے ہیں۔