داروغوں کا عہد

December 02, 2021

کبھی انسا ن کو اگر یہ احساس ہوکہ مسلسل اس کی نگرانی ہورہی ہے یا صرف اتنا ہی کہ اس کا فون سنا جا رہا ہے تو جلد ہی اس کے اعصاب تڑخنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ خوف زدہ ہو جاتاہے کہ نگرانی کرنے والا چاہتا کیا ہے۔ کیا اسے اغوا کر لیا جائے گا؟ یہ خوف ہی اسے مارڈالتا ہے کہ اس کی زندگی کے خفیہ گوشے عیاں ہو جائیں گے۔ اور کوئی اجنبی مخلوق اس کی کوئی کمزوری ڈھونڈ کر لوگوں کے درمیان اس کا تمسخر اڑائے گی۔

ایک چیز ہوتی ہے، اسکرین شاٹ۔ اسکرین شاٹ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت پر ایک رکیک بات کرتا پایا گیا۔ یہ ہے اس کا ثبوت؛لہٰذا آئیں، ہم سب مل کر اس سے نفرت کریں۔ سوشل میڈیا پر آج اسکرین شاٹس والی وبائیں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ اس آپا دھاپی میں ایک بات سب بھول ہی گئے کہ پہلے انسان نے ایک غلطی کی تھی تو تبھی ہم زمین پہ اترے تھے۔ اس کے بعد توبہ کے الفاظ بھی اللہ نے نازل کیے۔ توبہ نازل کرنے کی بجائے خدا اگر شجرِ ممنوعہ کو چھوتا اور انسانی ہاتھ کا اسکرین شاٹ آویزاں کر دیتا تو آج ہم کہاں کھڑے ہوتے ؟یہ کہانی شروع کہاں سے ہوئی؟ اطاعت گزار مخلوقات خد ا کی عبادت کر رہی تھیں۔ خالق نے ایک کمزور مخلوق پیدا کرنے کافیصلہ کیا۔ کبھی اس پہ خواہشات غالب آجاتیں اور کبھی ہدایت۔ یہی وجہ تھی کہ فرشتوں نے اپنی کم علمی کی وجہ سے اعتراض کیا کہ کرّہ ارض کی مخلوقات تولڑتی جھگڑتی رہتی ہیں، بھلا ان میں سے کوئی خدا کا نائب کیسے بن سکتی ہے؟

اس اثنا میں زمین پر ایجادات ہوتی رہیں ؛حتیٰ کہ انسان اس قابل ہو گیا کہ ایک دوسرے کی ریکارڈنگ کر سکے۔ کچھ لوگوں نے اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا؛حالانکہ حضرت فضیل بن عیاضؒ جیسی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جو پہلے کیا تھے اور پھر کس منصب پر فائز ہوئے۔ انسان کی فطرت میں گناہ کی خواہش موجود ہے۔ اس کے دماغ میں غصے کی جبلت بدرجہ اتم موجود ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ ایک اچھا بھلا انسان صرف نیند کی کمی یا بلڈ پریشر بڑھنے سے بھڑک اٹھتا ہے۔ ایسے میں وہ کوئی ناروا بات کر دیتاہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے اپنے کیمرے اور دوربینیں اٹھائے ہمارے صالح بھائی درختوں سے اترآتے ہیں اور بنی نوع آدم کو اس ذلیل انسان کی کارستانی سے باخبر کرنے لگتے ہیں۔

ایک سیاسی خاندان نے عشروں پہلے یہ کام شروع کیا کہ حریفوں کی ذاتی زندگی کو موضوعِ سخن بنا کر ان کی کردار کشی کی جائے۔ آج کل وہ اپنا بویا ہوا کاٹ رہا ہے۔ پھر بھی یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج تحریکِ انصاف اور نون لیگ کے درمیان یہ جنگ جاری ہے۔ مخالفین کو لتاڑکر فریقین کو کتھارسز کا موقع ملتا رہا۔ بعد ازاں انہیں ایک دوسرے کی چھترول کی عادت پڑ گئی۔ سوشل میڈیا کوتو کنٹرول کیا جاسکتا ہی نہیں لیکن قومی الیکٹرانک میڈیا بھی معمولی غلطی کرنے والے کم عمر افراد کی شکلیں پوری دنیا کو دکھا کر انہیں ساری زندگی کے لیے بدنام کر دیتا ہے۔ ایک کیمرہ چاہئے بس۔

آج ہر آدمی دوسروں پر منکر نکیر ہے۔ گوگل، یوٹیوب اور واٹس ایپ سمیت جو کچھ آپ کر رہے ہیں، ریکارڈ ہو رہا ہے۔ آپ نے کس فحش ویب سائٹ پر اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کیا۔ ہر انسان کے ہاتھ میں کیمرہ ہے اور ہر آدمی رپورٹر ؛حتیٰ کہ بسا اوقات میاں بیوی کی خلوت بھی نشر ہو جاتی ہے۔ بڑی عمر کے افراد کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ فیس بک اور سوشل میڈیا پر دوسرے بھی ان کی سرگرمیاں دیکھ سکتے ہیں۔

زندگی اسکرین شاٹ بن گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا ہمارے اسکرین شاٹ بنا کر معاشرے کے سامنے آویزاں کردے تو کیسا ہو؟ کیسا ہو اگر ایک بندہ توبہ کرنے لگے تواللہ کی طرف سے اسے کورا جواب ملے اور ساتھ ہی لوگوں کے سامنے اس کے اسکرین شاٹ چلنے لگیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ آدمی اپنے گناہوں پر تو ہمیشہ بخشش کی امید رکھتاہے لیکن دوسروں پر وہ ایسا دروغہ بنتا ہے کہ خدا کی پناہ۔گناہ گار سے گناہ گار مرد کو بھی کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی شریکِ حیات چاہئے۔ کہاں وہ ذات جو انسان کو اس طرح پاک کردیتی ہے، جیسے ماں کے پیٹ سے ابھی اس نے جنم لیا ہو۔ کہاں یہ اسکرین شاٹ والے داروغے جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم تمہارا گناہ پورے معاشرے کو دکھائیں گے۔

متکبر عبادت گزار سے بہتر ہے، آدمی شرمسار گناہ گار بن جائے۔ ساری زندگی گناہ سے پاک رہنے کا دعویٰ کرنے والے سے بڑا کذاب کون ہوگا۔ جو شخص بھی لیڈروں کے نجی لمحات کی وڈیوز ریکارڈ کر کے جاری کر رہا ہے، وہ اپنی زندگی میں ہی اس کا ایسا مزہ چکھے گا کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ اپنی طرف سے خواہ وہ خدمتِ خلق کر رہا ہو۔ جن لوگوں نے بے نظیر بھٹو پر خاتون سیاستدان ہونے کی وجہ سے آوازے کسے، آج وہ عبرت کا نمونہ ہیں۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں‘ وہ خدا کی صفت ’’ستار العیوب‘‘ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں‘ جس کا انجام بہت خوفناک ہوگا۔