ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر رئیس علوی سڈنی میں انتقال کرگئے

December 02, 2021

کراچی( اسٹاف رپورٹر) ممتاز ماہر تعلیم، شاعر و نقاد سابق ای ڈی او تعلیم، رجسٹرار جامعہ کراچی، ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم پروفیسر رئیس علوی آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں سرطان کے باعث بدھ کو انتقال کر گئے وہ چند ماہ سے اسپتال میں زیر علاج تھےسوگوراوں میں ایک بیٹا، ایک بیٹی اور پورے پوتیاں اور نواسے چھوڑے۔وہ سندھ بوائز اسکاوٹس کے سکریٹری بھیرہے پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی 7؍مئی 1946ء کو لکھنؤ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ میٹرک اور ایف اے لکھنؤ کے یوپی بورڈ سے کیا۔ 1961ء میں پاکستان کے لئے ہجرت کی۔ بی اے کراچی کے نیشنل کالج سے 1963ء میں اور ایم اے اردو کراچی یونیورسٹی سے 1965ء میں کیا پھر کراچی ہی میں سراج الدولہ کالج میں لیکچرار مقرر ہو گئے۔ وہ ٹوکیو یونیورسٹی جاپان میں اردو کے پروفیسر تعینات رہنے کے بعد جاپان سے واپسی پر سندھ میں تعلیم کے انتظامی امور سے وابستہ ہوئے، حکومت سندھ میں ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم اور کراچی کی شہری حکومت میں محکمۂ تعلیم کے سربراہ رہے، کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار بھی رہے اور قلندر شہباز یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بھی مقرر ہوئے،بعد ازاں نیو پورٹ آف کمیونی کیشن اینڈ اکنامکس کراچی کے ریکٹر مقرر ہوئے امریکہ کی پٹس برگ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز برائے تعلیم نے 2001ء میں فیلوشپ کی تکمیل پر علوی صاحب کو علمی حیثیت کے اعتراف میں انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ 2007ء میں بھارت نے ہندوستان میں ہندی، اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی یوپی نے اردو زبان کی خدمات کے اعتراف میں پروفیسر رئیس علوی کو ادبی ایوارڈ سے نوازا۔ فیض احمد فیض کے بعد یہ دوسرا ایوارڈ تھا جو کسی پاکستانی کو ملا تھا۔ پروفیسر علوی نے 2010ء میں نیوزی لینڈ میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے اردو ہندی کلچرل ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈکانہ صرف خاکہ پیش کیا بلکہ ایسو سی ایشن کے قیام کے بعد اس کے سرپرست اعلیٰ بھی مقرر ہوئے۔ 2011-12ء میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی اور ملبورن میں اردو زبان و ادب کی ترویج اور فروغ کے لئے مختلف سیمینار، مذاکروں اور فورمز پر خطاب بھی کیا۔ پروفیسر رئیس علوی کو ملال تھاکہ پاکستان میں سرکاری سطح پر اردو پر توجّہ نہیں دی جا رہی۔ انہوں نے چین، فرانس اور روس کی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے اپنی زبان کو ترقی دی، اسے سرکاری اور قومی طور پر اپنایا اور ترقی کر گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی نے ادبی و تعلیمی موضوعات پر بہت سے مضامین اور مقالات لکھے۔ وہ آٹھ کتابوں کے مصنّف ہیں جنمیں ان کا شعری مجموعہ ’’صدا ابھرتی ہے‘‘ بھی شامل ہے۔ پروفیسر علوی نے جاپانی ادب و زبان پر 5؍کتابیں لکھی ہیں۔ ان کا شمار بہترین ترجمہ نگاروں میں بھی ہوتا ہے۔ جاپانی زبان پر انہیں اردو کی طرح عبور حاصل تھا وہ پاکستان اور جاپان کے دانشور طبقے میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے وہ جاپانیوں کے مزاج اور طرز احساس سے خوب واقفیت رکھتے ہیں۔ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے شعبۂ اردو کے چیئرمین پروفیسر ہیروشی ہاگیتا نے ڈاکٹر رئیس علوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پروفیسر رئیس علوی کو جاپانیوں ان کے تراجم جن میں بارہویں صدی کے مشہور جاپانی شاعر سئی گیو کے دیوان کا ترجمہ ’’چاند کے رنگ‘‘ قابل تحسین ہے اور دوسرا کارنامہ مینوشو کا ترجمہ ہے۔ ’’گل صد برگ‘‘ جو جاپان کا قدیم ترین کلیات ہے اور جاپانیوں میں بے حد مقبول بھی ہے اس کا تین جلدوں پر مشتمل ترجمہ پاک جاپان دوستی کی لازوال مثال ہے جس کا سہرا پروفیسر رئیس علوی کے سر ہے۔ پروفیسر علوی نے جاپان کے عظیم شاعر اور ہائیکو کے سرخیل جناب متسواوبشو کا ’’اوکونوہوسو میچی (OKU NO HOSO MICHI) جو عالمی ادب کا ایک سدابہار سفرنامہ ہے، کا ترجمہ بھی کیا جس کا نام ہے ’’اندرون شمال کا تنگ راستہ‘‘ اس ترجمے کا انتساب جاپان میں اردو کے بہت بڑے اسکالر پروفیسر سوزوکی تاکیشی کے نام ہے۔ سوزوکی تاکیشی کی جاپان میں اردو کی ترویج کے لئے بے پناہ خدمات ہیں۔‘‘ جامعہ کراچی کے ڈین برائے کلیہ قانون جسٹس(ر) حسن فیروز اور سندھ بوائز اسکاوٹس یسوسی ایشن کے سیکریٹری اختر میر نے پروفیسر رئیس علوی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن نے سابق صوبائی سیکرٹری اور ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ افسر پروفیسر رئیس علوی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پروفیسر علوی اپنی ذات میں ایک ہم جہت شخصیت، دانشور اور ادیب تھے، ان کی اس ناگہانی وفات نے سندھ کے اسکائوٹس کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔