منکہ مسمی امیدوار برائے ضمنی انتخاب!

December 04, 2021

اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے بے پناہ سمجھ بوجھ سے نوازا ہے ۔ اللّٰہ مجھے معاف کرے میرے دل میں کبھی کبھی یہ گمان بھی گزرتا ہے کہ جتنی مجھے سمجھ بوجھ عطا ہوئی ہے اگر اس کا کچھ حصہ ہمارے حکمرانوں کو بھی عطا ہو جاتا تو بائیس کروڑ عوام کبھی اتنے پریشان نظر نہ آتے۔ یہ میں نے جوبات شروع کی ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ میں نے زندگی میں ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور ہمیشہ صحیح فیصلے تک پہنچا ہوں۔ اب یہ جو حلقہ این اے 133میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں میں بطور امیدوار اس میں حصہ لینا چاہتا تھا مگر میں نے سوچا کہ دوستوں، رشتے داروں، محلے داروں اور دوسرے بہتوں سے مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس کے لئے میں نے پورے تین دن باہمی مشاورت پر صرف کئے ۔

سب سے پہلے میں اپنے دوستوں بھولا ڈنگر، رفیق سیٹی، ادھا پہلوان اور دوسرے معزز د وستوں کے پاس گیا ۔بھولے ڈنگر کا مشورہ یہ تھا کہ تمہیں الیکشن میں ضرور کھڑے ہونا چاہئے اس کے ساتھ اس نے پوچھا تم زیادہ سے زیادہ کتنی دیر کھڑے رہ سکتے ہو ؟ میں نے جواب دیا میرے گھٹنوں میں درد رہتا ہے زیادہ دیر کھڑا رہنا میرے لئے ممکن نہیں۔ بھولے ڈنگر نے اس پرکہا ’’ پھر تم اپنا ارادہ ملتوی کر دو‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ کہنے لگا میں نے دو ٹانگوں پر کھڑا ہونے کی بابت نہیں پوچھا تھا بلکہ میرا مطلب یہ تھا کہ مخالف امیدوار کی طرف سے اگر تمہیں بیٹھنے کو کہا جائے اور اس کے عوض وہ تمہیں سودو سو روپے نذرانے کی آفر بھی کرے تو کیا پھر بھی کھڑے رہو گے؟ میں نے اس کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور کہا ’’تم ڈنگر کے ڈنگر ہی رہے میں اپنی زندگی کے ایک اہم فیصلے کے بارے میں تم سے پوچھ رہا ہوں اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے؟‘‘ اس پر بھولا ’’ڈنگر‘‘ گرمی کھا گیا اور کہنے لگا، تم لوگ مجھے بھولا ڈنگر بھی کہتے ہو اور مشورہ بھی مجھ ہی سے مانگتے ہو۔چلو کھڑے ہو جائو الیکشن میں ،مخالف امیدوار کی طرف سے کی گئی پیشکش تم نے قبول نہ بھی کی تو ایک ’’نجی ٹیلی فون کال‘‘ پر ڈھیرہو جائو گے۔

بھولے کی طرف سے مایوس ہو کر میں نے رفیق سیٹی اور ادھےپہلوان کو فون کیا کہ آج شام کی چائے وہ میری طرف پئیں ،یہ دونوں میری اس پیشکش پر بہت حیران ہوئے بلکہ ادھےپہلوان نے تو کہہ بھی دیا’’تم اپنے ہوش وحواس میں ہو بھی کہ نہیں ؟‘‘ میں نے کہا ’’میں بقائمی ہوش وحواس تمہیں چائے کی دعوت دے رہا ہو ں‘‘۔ اس کا جواب آیا ’’آج تک تم نے ہم پر ایک آنہ بھی کبھی خرچ نہیں کیا، اس لئے پوچھ لیا تھا، خیر آجائوں گا‘‘چنانچہ رفیق سیٹی اور ادھا پہلوان وقت مقررہ پر میری طرف آئے تو میں نے والہانہ انداز سے ان کا استقبال کیا اور اپنی بیٹھک میں بٹھایا وہ دونوں میرے بدلے ہوئے رویے یعنی اس درجہ پذیرائی پر بہت حیران تھے۔بات کا آغاز ادھےپہلوان نے کیا اور کہا ’’آج تمہیں پرانے دوستوں کی یاد کیسے آ گئی؟‘‘ میں نے کہا ’’یار الیکشن میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں سوچا تم ایسے زیرک و دانا دوستوں سے مشورہ کر لوں‘‘ یہ سن کر دونوں اپنی جگہ سے اٹھے اور غصے سے یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ ’’تمہارے بھونڈے مذاق کی تو ہمیں عادت تھی مگر اس درجہ بھونڈے مذاق کا ہمیں اندازہ نہ تھا‘‘ اللّٰہ یہ برا وقت کسی پر نہ لائے کہ اس کے دوست اس کی اوقات سے واقفیت کی بنا پر اس کی اتنی ’’بیستی‘‘ کریں۔

پھر یوں ہوا کہ رشتے داروں نے بھی مجھے بہت مایوس کیا کہ آج تک تم ہماری کسی خوشی غمی میں شریک نہیں ہوئے اور آج بوقت ضرورت ہم سے مشورہ لینے آگئے ہو۔ہمارا مشورہ یہ ہے کہ الیکشن میں ضرور حصہ لو مگر ہم ووٹ تمہیں نہیں تمہارے مخالف امیدوار کو دیں گے!میں محلے کے دکانداروں کے پاس گیا تو وہ اپنے کھاتے کھول کر بیٹھ گئے اور بتایا کہ تمہاری طرف دو سال سے اتنی رقم بنی ہوئی ہے ابھی ادا کر دو تو پھر الیکشن میں کھڑے ہونے کا مشورہ دیں گے اور ساتھ یہ بھی لکھوائیں گے کہ کامیابی کی صورت میں تم ہم سے نقد سامان لیا کروں گے کیونکہ ابھی تم کچھ بھی نہیں ہو اور غریب مار کرتے ہو بعد میں تو تم نے ’’ہنیر‘‘ مچا دینا ہے !اتنے سارے لوگوں سے مشاورت کے بعد میں اپنے اس خیال میں واضح ہو گیا کہ کبھی نچلے درجے کے لوگوں کو منہ نہیں لگانا چاہئے چنانچہ میں ایک بڑے سرمایہ دار کے پاس گیا جو میرا بچپن کا دوست تھا مگر بڑا آدمی ہونے کے بعد اس نے کبھی مڑ کر میرا حال نہیں پوچھا تھا تاہم یہ اس کی مہربانی تھی کہ وہ مجھے بہت اچھے طریقے سے ملا اور پوچھا ’’کچھ پیوگے ؟‘‘میں نے ہاں میں جواب دیا تو اس نے ملازم کو آواز دی صاحب کے لئے ایک گلاس ٹھنڈے پانی کا لائو اور گلاس اچھی طرح دھو کر لانا اپنی اس خاطر مدارت پر میں رنجیدہ تو ہوا تاہم اپنا مدعا نہ چاہتے ہوئے بھی بیان کر دیا اور ساتھ یہ بھی کہا ’’مجھے الیکشن کمپین کے لئے بہت بڑی رقم درکار ہو گی میں اس سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں ’’یہ سن کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا ’’مجھے ایک میٹنگ میں جانا ہے ‘‘ اور پھر ملازم سے کہا’’ان صاحب کو دھکے مار کر نکال دو، پانی بھی رہنے دو اور پورے کمرے کو فوراً سپرے کرو‘‘۔