پاک، یورپی یونین پہلا سیکیورٹی ڈائیلاگ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں منعقد ہوگا

December 05, 2021

یورپین یونین اور پاکستان کے درمیان پہلا سیکیورٹی ڈائیلاگ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں منعقد ہوگا۔

یہ بات یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بتائی گئی۔

یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس نے یہ اعلامیہ یورپین یونین اور پاکستان کے درمیان جمعہ کے روز آن لائن منعقد ہونے والے 7ویں پولیٹیکل ڈائیلاگ کے تناظر میں جاری کیا تھا۔

ان مذاکرات میں یورپ کی نمائندگی یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل اینرک مورا اور پاکستان کی نمائندگی سیکٹری خارجہ سہیل محمود نے کی۔

ایکسٹرنل ایکشن سروس کے مطابق ان مذاکرات میں یورپین یونین اور پاکستان نے اپنے دوطرفہ تعلقات سے متعلق تمام امور کے ساتھ ساتھ علاقائی سلامتی اور استحکام سمیت خارجہ پالیسی کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی فریقین نے ای یو۔پاکستان اسٹریٹجک انگیجمنٹ پلان (SEP) کے نفاذ کے ساتھ مزید پیش رفت کی اہمیت پر اتفاق کیا۔

اس تناظر میں دونوں شراکت داروں نے 2022 کے اوائل میں ای یو۔پاکستان سیکیورٹی ڈائیلاگ کے پہلے اجلاس کے انعقاد کے لیے اپنے پختہ عزم کا اظہار کیا۔

اعلامیے کے مطابق ان مذاکرات میں جن دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا ان میں انسداد دہشت گردی پر تعاون، خاص طور پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف کارروائی اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ایکشن پلان کے نفاذ کی جانب پاکستان کی پیشرفت شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی جی ایس پی پلس کے تحت حاصل تجارتی ترجیحات سے منسلک بین الاقوامی کنونشنز کے لیے انسانی حقوق کے مسائل پر پاکستان کی جانب سے نئی قانون سازی متعارف کروانے کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

ان مذاکرات میں یورپین یونین نے حال ہی میں منظور کیے گئے قوانین کا خیرمقدم کرتے ہوئے دیگر قانون سازی کی تجاویز کی بروقت تکمیل کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے مؤثر نفاذ کے فریم ورک کی اہمیت پر زور دیا۔

اعلامیے کے مطابق فریقین نے علاقائی اور بین الاقوامی خارجہ پالیسی کے امور بالخصوص افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

دونوں نے فوری اور بلا روک ٹوک انسانی امداد فراہم کرنے اور آبادی کو براہ راست بنیادی سماجی خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔

دونوں نے پچھلی دو دہائیوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے حقوق کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے افغانستان میں استحکام اور مفاہمت کے امکانات کے لیے ایک جامع حکومت کی اہمیت پر بھی زور دیا۔