عدلیہ بنیادی حقوق کی محافظ

December 06, 2021

’’قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہمارا کام ہے‘‘ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کے یہ الفاظ پاکستان ہی نہیں دنیا کے ہر ملک کی عدلیہ کی اصل ذمے داری کی وضاحت کرتے ہیں۔ تاہم اپنا یہ فرض وہی عدالتیں انجام دے سکتی ہیں جو حقیقی معنوں میں آزاد اور اتنی جرأت مند ہوں کہ مظلوم کو انصاف فراہم کرنے کی خاطر بااثر عناصر اور طاقتور حلقوں کے ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرسکیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک کی عدلیہ کے سربراہ نے گزشتہ روز پنجاب بار کونسل میں ’’انصاف کی فراہمی میں عدلیہ اور وکلاء کے کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے اپنے خطاب میں اس حوالے سے بھی قوم کو یقین دلایا ہے کہ ’’عدلیہ کا کوئی ر جحان نہیں ہوتاجج ہر کیس کی نوعیت کے حساب سے فیصلہ کرتا ہے، عدلیہ آزاد ہے اور آزاد ہی رہے گی۔‘‘ انہوں نے ملکی عدلیہ کے بارے میں پائے جانے والے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ اس کے فیصلے وقت اور ماحول کے تحت ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’جج صاحبان موسم گرما میں گرمی اورموسم سرما میں سردی والا فیصلہ نہیں دیتے، فیصلوں کو عدلیہ کا رجحان قرار دینا مناسب نہیں۔‘‘ انسانی حقوق کے تحفظ کے معاملے میں ایک جج کو کس قدر ذمے دارانہ طرز عمل اپنانا چاہیے، اس کی صراحت ملک کے منصف اعلیٰ نے ان الفاظ میں کی کہ ’’ اگر ہم انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہم جج رہنے کے قابل نہیں،عدالتوں کو ہر شہری کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔‘‘ محترم چیف جسٹس کے ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عدلیہ نہ صرف آزاد ہے بلکہ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا فرض منصبی بھی بخوبی انجام دے رہی ہے۔لیکن کیا عملی اور واقعاتی حقائق بھی اس کی گواہی دیتے ہیں؟یہ فیصلہ حالات پر نظر رکھنے والا ہر شخص خود کرسکتا ہے۔ہم اپنی عدلیہ کے ماضی پر نظر ڈالیں تو جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کا آسیب طاقتور حلقوں کے ہر غیرآئینی اور جمہوریت کش اقدام کو سند جواز فراہم کرتا نظر آتا ہے۔ جہاں تک ماضی قریب کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے متعلق عدالتی فیصلوں پر طاقتورحلقوں کے دباؤ کا معاملہ ہے تو اس کے متعدد شواہد آڈیو ویڈیو کلپس اور دوسری شکلوں میں منظر عام پر آچکے ہیں اور ان کے تناظر میں عدلیہ کی آزادی کا دعویٰ قابل غور معلوم ہوتا ہے۔علاوہ ازیں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا تعلق محض عدلیہ کی آزادی سے نہیں ، اس کیلئے ضروری ہے کہ غریب اور امیر ، طاقتور اور کمزور سب کو عدالت سے رجوع کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں لیکن ہمارے معاشرے میں حصول انصاف کے لیے سائل کے پاس خطیر مالی وسائل کا ہونا لازمی ہے جبکہ غریب نہ مہنگے وکیل کرسکتا ہے نہ عدالتی فیسوں کی ادائیگی اس کے لیے آسان ہے۔ پھر عدالتی فیصلوں میں اکثراس قدر تاخیر ہوتی ہے کہ انصاف کا ملنا بے معنی ہوجاتا ہے۔ بے شمار لوگ جھوٹے مقدمات میں سزا پاتے ہیں اور ان میں سے بعض خوش نصیب برسوں بلکہ عشروں کے بعد باعزت بری قرار دیے جاتے ہیں۔ماتحت عدالتوں کا حال جتنا برا ہے، چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں خود اس کا ذکر کیا اور حکومت اور صوبائی چیف جسٹس صاحبان سے اس سلسلے میں ضروری اقدامات پر توجہ دینے کو کہا۔ عدالتوں میں ججوں کے ساتھ وکلاء کے ناشائستہ رویے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی اصلاح بھی لازمی ہے جس کا بھرپور اظہار چیف جسٹس اور دیگر مقررین نے کیا۔ ہمارے نظام انصاف کے یہ نقائص جب تک دور نہ ہوں، عدالتیں ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمے داری پوری نہیں کرسکتیں اور جن معاشروں میں انصاف نہ ہو انہیں زوال سے بچایا نہیں جاسکتا لہٰذا بنیادی حقوق کے تحفظ کی خاطر حقیقی معنوں میں آزاد اور پوری طرح فعال عدلیہ کے قیام کے لیے پارلیمان، حکومت اور عدلیہ کو باہمی مشاورت سے تمام مطلوبہ اقدامات عمل میں لانا ہوں گے۔