• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جولائی 2019ء میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پاکستان کو 3سال کے عرصے میں 6 ارب ڈالر کی رقم قسطوں میں ملنا تھی لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے کورونا اور دیگر وجوہات کے باعث آئی ایم ایف پروگرام پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو صرف 2ارب ڈالر کی رقم مل سکی تاہم حال ہی میں چھٹے نظرثانی اجلاس اور 6ہفتے کے سخت مذاکرات کے بعد 1.059ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے جس کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کا بورڈ آف ڈائریکٹرز جنوری میں دے گا اور آئی ایم ایف کے اس پروگرام کے تحت پاکستان کو ملنے والی مجموعی رقم 3.027 ارب ڈالر ہوجائے گی لیکن آئی ایم ایف کا یہ معاہدہ عوام کیلئے مزید مہنگائی اور مالی مشکلات کاباعث بنےگا۔

حکومت جلد ایک منی بجٹ لانا چاہتی ہے جس میں آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد کیلئے بجلی کے نرخوں میں 4.85روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا جس سے صارفین پر ماہانہ 61ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جبکہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) کی مد میں 4 روپے فی لیٹر ماہانہ کے حساب سے جون 2022ء تک مجموعی طور پر 30روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا جائے گا جس سے صارفین پر 356ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ زراعت، کھاد، اشیائے خورد و نوش اور ادویات کے علاوہ دیگر اشیاء پر 350ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کردی جائے گی جو مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔اس کے علاوہ پبلک سیکٹر ترقیاتی منصوبوں میں 200 ارب روپے کم کئے جارہے ہیں جو 900ارب روپے سے کم ہوکر 700ارب روپے ہوجائیں گے جس سے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوں گے۔ ایف بی آر کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشفاق نے مجھے بتایا کہ ایف بی آر کا اس سال کا ریونیو ہدف 5829ارب روپے سے بڑھاکر 6100ارب روپے کردیا گیا ہے جس کیلئے وہ اور ان کی ٹیم پرعزم ہے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے ریونیو وصولی کی کارکردگی کو سراہا ہے جو گزشتہ کئی سال سے ہدف سے زیادہ ریونیو وصول کررہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل بھی پارلیمنٹ سے منظور ہوچکا ہے لیکن گورنر اسٹیٹ بینک پہلے کی طرح پارلیمنٹ کو رپورٹ کریں گے اور انہیں احتساب سے بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کی دیگر شرائط میں اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں 1.5فیصد اضافہ، جی ڈی پی گروتھ جس کا ہدف رواں سال4 فیصد رکھا گیا ہے اور مانیٹری پالیسی کے ذریعے افراط زرکو کنٹرول کرنا ہے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے گردشی قرضوں کو کم کرنا ہے جس کیلئے حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑے گا تاہم اس ضمن میں آئی ایم ایف نے پاور سیکٹر میں صرف مستحق صارفین کو براہ راست سبسڈی دینے پر اتفاق کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، ریلوے، واپڈ اور پی آئی اے کی نجکاری، گڈ گورننس، کرپشن کے سدباب اور ایکسپورٹس بڑھانے اور کورونا ویکسین پر خرچ ہونے والے اخراجات کی تفصیلات اور آڈٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ 5ماہ (جولائی سے نومبر) میں ملکی ایکسپورٹس 12.34ارب ڈالر جبکہ امپورٹس 32.94ارب ڈالر رہیں اور اس طرح 111.74 فیصد اضافے سے 20.60 ارب ڈالر کا ریکارڈ تجارتی خسارہ ہوا جس کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی سے روپیہ 178روپے کی کم ترین سطح پر آگیا ہے جس سے قرضوں میں 2300ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ 2135پوائنٹس کی تاریخی کمی سے کریش ہوگئی اور سرمایہ کاروں کے 332ارب روپے ڈوب گئے۔ 4ارب ڈالر ماہانہ سے 48ارب ڈالر سالانہ تجارتی خسارہ موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر برداشت نہیں کرسکتے لہٰذا ہمیں بڑی گاڑیوں اور پرتعیش اشیاء کی امپورٹس فوری طور پر بند کرنا ہوں گی۔ ان مشکل حالات میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی 30ارب ڈالر کی ترسیلات زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑا سہارا دے رہی ہیں۔ حکومتی زرمبادلہ کے ذخائر 777ملین ڈالر کی کمی سے 22.7ارب ڈالر رہ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 16.3ارب ڈالر اور نجی بینکوں کے 6.4ارب ڈالر شامل ہیں۔

روپے کی گرتی ہوئی قدر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سبب ہے جسے مستحکم رکھنے کیلئے سعودی عرب نے سخت شرائط پر 3ارب ڈالر سپورٹ فنڈ4فیصد منافع پر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہانہ 100ملین ڈالر کا ادھار تیل جو سالانہ 1.2ارب ڈالر بنتے ہیں، 3.8فیصد مارجن پر دینے کا ایک سالہ معاہدہ کیا ہے جسے بعد میں بڑھایا بھی جاسکتا ہے جبکہ سپورٹ فنڈز 72 گھنٹے کے نوٹس پر واپس لئے جاسکتے ہیں۔ سعودی سپورٹ فنڈز اور ادھار تیل کی سہولت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ آئی ایم ایف کا معاہدہ دوسرے مالیاتی اداروں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایف سی کیلئے گرین چٹ کی طرح ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کی مانیٹرنگ کررہی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کیلئے ان اداروں کی فنڈنگ آسان ہوجاتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے نتیجے میں ناقابل برداشت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے غریب صارفین کو براہ راست سبسڈی دینے سمیت ایسے اقدامات کرے کہ عوام مہنگائی کا مقابلہ کرسکیں اور سٹے باز ان حالات سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین