رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس، آٹوامیون ڈیزیز ہے، جو پھیپھڑوں پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے

December 12, 2021

بات چیت … عالیہ کاشف عظیمی

رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس(Rheumatoid Arthritis) ایک آٹو امیون ڈیزیز ہے، جس میں ہڈیوں کے جوڑ متوّرم ہوجانے کے نتیجے میں روزمرّہ امور انجام دینا دشوار ہوجاتا ہے۔ اگر علاج نہ کروایا جائے تو مستقل معذوری عُمر بھر کا روگ بن سکتی ہے۔ مرض لاحق ہونے کے اسباب کیا ہیں، اس سے تحفّظ ممکن ہے اور ایسی کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کہ پیچیدگیوں کی نوبت نہ آئے۔ یہی سب کچھ جاننے کے لیے ہم نے معروف رہیوماٹالوجسٹ، ڈاکٹر صالحہ اسحاق سے بات چیت کی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

ڈاکٹر صالحہ اسحاق نے ڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی سے ایم بی بی ایس(ایم ڈی)کیا۔ بعد ازاں، ڈپلوما آف امریکن بورڈ انٹرنل میڈیسن اور ڈپلوما آف امریکن بورڈ آف رہیوماٹالوجی کی سند حاصل کی، جس کے بعد وقتاً فوقتاً مختلف کورسز کیے، جب کہ امریکا کے ایک معروف اسپتال North Shore Rheumatology Hospital میں دس سال تک بطور کنسلٹنٹ کام کیا۔2010ء میں پاکستان واپس آئیں اور آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی سے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہوگئیں ،جہاں تاحال تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

اس کے علاوہ کراچی ہی میں آغا خان یونی ورسٹی اسپتال اور ساؤتھ سٹی اسپتال سے بطور کنسلٹنٹ رہیوماٹالوجسٹ بھی منسلک ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ کے بین الاقوامی جنرلز میں کئی مقالے شایع ہوچُکے ہیں۔ نیز، شعبۂ طب میں ان کی خدمات پر انھیں کئی مُلکی و غیر مُلکی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چُکا ہے۔

ڈاکٹر صالحہ اسحاق سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

نمائندۂ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے (عکاسی: اسرائیل انصاری)

س:جوڑوں کے امراض کی پچاس سے زائداقسام ہیں،جن میں رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس بھی شامل ہے، تو اس مرض میں درحقیقت ہوتاکیا ہے؟

ج: ہمارےجسم کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اگرہڈیاں جزو لازم ہیں، تو ہڈیوں کے سِروں پر واقع، جوڑ ہمیں متحرک رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اگر ان جوڑوں میں کسی بھی سبب کوئی خرابی واقع ہو جائے، تو جوڑوں کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یوں تو جوڑوں کے کئی امراض ہیں، مگر آسٹیو آرتھرائٹس (Osteo Arthritis) اور رہیوماٹئڈآرتھرائٹس زیادہ عام ہیں، جب کہ ہمارے مُلک میں سب سے عام آسٹیو آرتھرائٹس ہے، جو بڑھتی عُمر کا عارضہ ہے اور اس میں زیادہ تر 50سال سے زائد عُمر کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔

آسٹیوآرتھرائٹس میںعموماً جسم کے بڑے جوڑ متاثر ہوتے ہیں، مگر بعض کیسز میں تمام جوڑ ہی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ رہیوماٹئڈآرتھرائٹس میں جوڑوں میں پانی بَھرجاتا ہے اور وہ متوّرم ہو جاتے ہیں، نتیجتاً اکثر صُبح کے وقت یا آرام کرنے کے بعد جوڑ سخت ہوجاتے ہیں، لیکن یہ کیفیت کچھ ہی دیر برقرار رہتی ہے، مگربعض اوقات مریض تین سے چار گھنٹے تک معمول کے مطابق چل پِھر نہیں سکتے۔

رہیوماٹئڈآرتھرائٹس کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی بعض ادویہ سے نظامِ ہاضمہ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ بعض کیسز میں یہ مرض پھیپھڑوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے،جس کے نتیجے میں سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، لیکن واضح رہے،زیادہ تر مریضوں میں مرض لاحق ہونے کے کچھ عرصے بعدہی پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات پھیپھڑوں میں چھوٹے سائز کی گلٹیاں بھی بن جاتی ہیں ۔

ماضی میں رہیو ماٹئڈآرتھرائٹس سے متاثرہ مریضوں کے ہاتھ پاؤں مُڑجانے کی شرح بُلند تھی، ان کی طبعی عُمر بھی خاصی کم ہوجاتی تھی، لیکن اب ایسی مؤثر ادویہ دستیاب ہیں، جن کے استعمال سے مرض کنٹرول میں رہتا ہے، بلکہ مریض کئی کئی برس تک جوڑوں کے درد کی شکایت بھی نہیں کرتے۔

خود مَیں نے بھی پچھلے8 ، 10سال کے دوران ایسے مریض نہیں دیکھے، جن کی ہاتھ پائوں مُڑ گئے ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب مرض ابتدائی مرحلے ہی میں تشخیص ہورہا ہے اور مریض علاج بھی کروا رہے ہیں۔سو، یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ 10، 15 برسوں میں جو چند کیسز ہاتھ پائوں مُڑنے کے رپورٹ ہو رہے ہیں، وہ بھی نہیں ہوں گے۔

س: دُنیا بَھراور پاکستان میں اس مرض کی شرح کیا ہے؟

ج: دیکھیں، اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کوئی اسٹڈی تو نہیں ہے۔ تاہم ،دُنیا بَھر میں اس مرض کی شرح ایک فی صد ہے،جو معمولی نہیں، خاصی بڑی تعدادہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی2کروڑآبادی میں سے 20لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

س: مریضوں کی تعداد کے پیشِ نظر رہیوماٹالوجسٹس کی تعداد تسلّی بخش ہے؟

ج:یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ مریضوں کی تعداد کی نسبت رہیوماٹالوجسٹس کی تعداد بہت کم ہے، جب کہ بچّوں کے علاج کے لیے توسرے سے رہیوماٹالوجسٹس موجود ہی نہیں ہیں۔

س: رہیو ماٹئڈآرتھرائٹس لاحق ہونےکی وجوہ کیا ہیں اور یہ مرض اس قدر عام کیوں ہورہا ہے؟

ج: مرض لاحق ہونے کے تین بنیادی اسباب ہیں، موروثیت،ماحولیاتی آلودگی اور غیر معیاری غذائیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بعض جینز تبدیل نہیں ہوتیں اور بعض میں وقت کے ساتھ کسی بھی وجہ سے تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔مثال کے طور پر تمباکو نوشی جین کی تبدیلی کی وجہ بنتی ہے، جس کے نتیجے میں رہیوماٹئڈآرتھرائٹس یا پھیپھڑوں کا سرطان لاحق ہوسکتا ہے۔

کہنے کامطلب یہ کہ بعض عوارض ایسے ہیں، جو پیدایشی طور پر لاحق نہیں ہوتے،لیکن جینزمیں تبدیلی کی بنا پر ہم اُن کا شکار ہوجاتے ہیں۔رہی بات مرض عام ہونے کی، تودَورِحاضر میں آٹوامیون ڈیزیزمثلاً رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس، لوپس، آئی بی ڈی(Inflammatory Bowel Disease) یا پھر کمر کے درد کی مخصوص بیماری "Ankylosing Spondylitis Disease" کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،جس کی وجہ ماحولیاتی آلودگی اورغیر معیاری غذائیں ہیں۔ ماضی میں لوگ جن علاقوں میں رہتے تھے، وہیں ہی کے کھانے کھاتے تھے۔ اس سے نہ تو انہیں کوئی الرجی ہوتی تھی نہ ہی دیگر طبّی مسائل جنم لیتے تھے۔ کھانا بھی تازہ کھاتے تھا۔

اب ہم فاسٹ فوڈز، فروزن کھانے زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں۔دیکھیں، جب ہم کھانا گھر پر بناتے ہیں، تو وہ تازہ ہوتاہے، لیکن ڈبّوں میں محفوظ کھانے (Canned Food) کئی کئی مہینے بند رہتے ہیں اور ان کی Shelf Life چھے ماہ یا سال تک ہوتی ہے،توانہیں ایک خاص مدّت تک قابلِ استعمال رکھنے کے لیے پاور فُل کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں اور یہی کیمیکلز ہمارے جسم میں شامل ہوکر مختلف طبّی مسائل کی وجہ بن رہے ہیں۔

بدقسمتی سے اب غذائیں ہی نہیں، مسالا جات بھی پہلے جیسے تازہ اور خالص نہیں رہے ہیں۔ ایک مستندتحقیق کے مطابق زیادہ تر بیماریوں کی ابتدا پیٹ سے ہوتی ہے، کیوں کہ ہمارے نظامِ ہاضمہ میں بھی ایک دماغ موجود ہے، جو معدے اور آنتوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ روزانہ کے ضروری اموربھی انجام دیتا ہے، تواگر ہم ملاوٹ شدہ غذائیں یا مسالاجات استعمال کریں گے، تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ نظام متاثر ہی ہوگا۔

س:’’معدے میں دماغ‘‘ سے کیا مُراد ہے ؟

ج: بعض اوقات ہمیں کہیں باہر جانا ہو، تو ایک وارننگ ملتی ہے کہ ’’مت جائو‘‘ اِسے طبّی اصطلاح میں Gut Feelingsکہا جائے گا۔ اِسی طرح بعض مریضوں کےتمام ٹیسٹس صحیح ہوتے ہیں، مگر معالج کو بار بار خیال آتا ہے کہ مزید ٹیسٹس بھی کروانے چاہئیں۔ تو ہمارے نظامِ ہاضمہ میں بھی ایک پورا اعصابی نظام موجود ہے، جو ہمیں الرٹ کرتا ہے کہ یہ نہ کرو، یہاں مت جائو، یہ مت کھائو۔ بعض اوقات ہم کوئی چیز کھانے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں، مگر لاشعوری طور پر پیچھے کرلیتے ہیں کہ یہ نہیں کھانا چاہیے۔

تو یہ سب گٹ فیلنگز ہیں کہ ہمارے گٹ میں بلین Microbes یعنی جرثومے پائے جاتے ہیں، جو صحت کے لیے مفید ہیں اور ہمارے ساتھ رہتے ہیں، لیکن ہم نے اینٹی بائیوٹکس اور غیر معیاری غذاؤں کے مستقل استعمال سے اپنےگٹ کے جرثومے تبدیل کر دیئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم زرخیز زمین میں خراب مٹّی شامل کردیں تو اس میں وہ چیزیں نہیں اُگیں گی، جو پہلے باآسانی اُگ جاتی تھیں،بالکل اسی طرح ہمارے جسم میں جو مفید جرثومے تھے، وہ جسم کے ساتھ مل کر مفید امورانجام دیتے تھے، مگر ہم نےبتدریج ان میں مزاحمت پیدا کردی ہے اوریہی وجہ ہے کہ اب پیٹ کی بیماریاں عام ہو گئی ہیں، تقریباً ہر فرد بدہضمی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔

س: کیا رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس کی بھی مختلف اقسام ہیں ؟

ج: اقسام تو نہیں، البتہ نوعیت کے اعتبار سےانہیں تین درجات میں منقسم کیا جاتا ہے۔ پہلے درجے میں مرض کی نوعیت معمولی ، دوسرے میں درمیانی اور تیسرے میں شدید ہوتی ہےاور ان ہی درجات کے مطابق مرض کاعلاج بھی کیا جاتا ہے۔

س: اگر کوئی حاملہ رہیو ماٹئڈ آرتھرائٹس کا شکار ہو، تو کیا شکم میں پلنے والا بچّہ بھی اس مرض سے متاثر ہو سکتا ہے؟

ج: نہیں، کیوں کہ یہ مرض تھیلیسیمیا جیسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر کوئی ماں اس مرض سے متاثر ہے، تو نومولود میں مرض کی جانچ کے لیے ٹیسٹ نہیں کرسکتے ، کیوں کہ بعض کیسز میں بلڈ ٹیسٹ پازیٹو ہوتا ہے، مگر مرض فعال نہیں ہوتا اور جب تک علامات ظاہر نہ ہوں، علاج نہیں کرسکتے ۔ یہ مرض موروثی ضرور ہے، مگر ضروری نہیں کہ سیکنڈ جنریشن لازماً متاثر ہو۔ ممکن ہے کہ تین چار نسلوں کے بعد کسی میں مرض ظاہر ہو جائے۔

س: کیا رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس کا بڑھتی عُمر سے بھی کچھ تعلق ہےاور یہ کس عُمر کے افراد کو زیادہ متاثر کرتاہے؟

ج:یہ مرض زیادہ تر 20سے 30سال کی عُمر میں لاحق ہوتا ہے، مگر اب 40سے 50سال کی عُمرکے افراد میں بھی تشخیص ہو رہا ہے،جب کہ مَردوں کی نسبت خواتین میں اس کی شرح بُلند ہے۔

س:وہ کون سی علامات ہیں، جو مرض کی تشخیص میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں ؟

ج: اس مرض کی سب سے عام علامت جوڑوں کا درد ہے، جو ابتدا میں ہاتھوں اور پائوں میں ہوتا ہے۔ بعدازاں کلائی اور گھٹنے کے جوڑ بھی درد کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سُستی اور جوڑوں میں جکڑن محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہلکا سا بخار بھی ہوجاتا ہے۔

س: کون کون سے جوڑ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟

ج:رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس میں جو جوڑ متاثر ہوتے ہیں ،انہیں دو گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا گروپ "Peripheral Arthritis" کہلاتا ہے، جس میں ہاتھ پائوں کی انگلیوں کے جوڑ، کلائی، گھٹنے اور ٹخنے کے جوڑ شامل ہیں، جب کہ دوسرے گروپ میں کمر کے نچلے حصّے اور کولھے کے جوڑ شامل ہیں۔ویسے زیادہ تر کیسز میں چھوٹے جوڑ ہی متاثر ہوتے ہیں۔

س: تشخیص کے لیے کس طرح کے ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں؟

ج: مرض کی تشخیص کے لیے خون کا ٹیسٹ اور ایکس رے تجویز کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات بلڈ ٹیسٹ اور ایکس رے کی رپورٹ بالکل نارمل ہوتی ہے، مگر مریض میں علامات کی نوعیت شدیدپائی جاتی ہے۔ طبّی اصطلاح میں اسے"Seronegative Rheumatoid Arthritis"کہتے ہیں۔ ایک تہائی مریض Seronegative ہوتے ہیں،جب کہ زیادہ تر Seropositive ہی ہوتے ہیں۔

س: علاج کے جدید ترین طریقے کون کون سے رائج ہیں اور سب سے مستند طریقۂ علاج کیا ہے؟

ج: آج سے 25سے 30سال قبل علاج کے ضمن میں ایک مخصوص دوا (Aspirin) اتنی زائد مقدار میں تجویز کی جاتی تھی کہ زیادہ تر مریض بہرے ہو جاتے تھے۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا، علاج کے جدید سے جدید طریقے متعارف ہوتے چلے گئے۔ اس وقت رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس کے کئی جدید علاج مستعمل ہیں،جن میں بعض انجیکشنز ایسے ہیں،جوانسولین کی طرح مریض خودبھی لگا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور طریقۂ علاج میں صرف اسپتال میں ہر چھے ماہ بعد یا سال میں ایک مخصوص انجیکشن لگایا جاتا ہے۔ رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس کی ادویہ اور انجیکشنز کے بھی دیگر ادویہ کی طرح سائیڈ ایفیکٹس ہیں۔

جیسا کہ اگر کسی کو پہلے ٹی بی کا مرض لاحق ہو، تو ٹی بی کی ری ایکٹی ویشن بھی ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس کے مریضوں کا ہیپاٹائٹس اور ٹی بی وغیرہ کا بھی ٹیسٹ کروایا جاتا ہے، تاکہ مریض اگر کسی اور مرض کا بھی شکار ہے، تو پہلے اُس کا علاج کیا جائے، اُس کے بعد رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس کا۔ اس مرض کی ادویہ رہیوماٹالوجسٹس ہی تجویز کرسکتے ہیں، ہر معالج نہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر فرد رہیوماٹالوجسٹ سے رابطہ نہیں کرپاتا ہے، لہٰذا مَیں سب کو یہی مشورہ دیتی ہوں کہ صرف ایک بار رہیوماٹالوجسٹ سے معائنہ کروالیں، پھر اس کے مشورے سے جنرل فزیشن سے رابطے میں رہیں، لیکن سال یا چھے آٹھ ماہ بعد رہیوماٹالوجسٹ سے بھی لازماً رابطہ کریں، کیوں کہ اس مرض کے علاج کے لیےمریض اور معالج کا رابطہ ضروری ہے۔ علاوہ ازیں، پہلے متاثرہ مریضوں کی سرجری بھی کی جاتی تھی، لیکن اب ابتدا ہی میں انجیکشنز تجویز کردئیے جاتے ہیں، تاکہ ہڈیوں کے جوڑ خراب ہوں اور نہ ہی مرض ایگریسیو۔

س: ابتدائی مراحل میں مرض پر سو فی صد کنٹرول ممکن ہے؟

ج: رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس بھی ذیا بطیس اور بُلند فشارِ خون کی طرح ختم نہ ہونے والے امراض میں سے ایک ہے، لیکن اس مرض میں مریض کبھی ایک دوا یا انجیکشن استعمال کرتا ہے، تو کبھی ادویہ کی تعداد بڑھانی پڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات مریض کوئی معمولی نوعیت کی دوا خاصے عرصے سے استعمال کررہے ہوتے ہیں، مگر کسی ذہنی تناؤ، موسمی تبدیلی یا کسی بھی وجہ سے مرض ری لیپس ہو جاتا ہے۔

ویسے یہ مرض ابتدائی مرحلے ہی پر جلد کنٹرول ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیے، اگر مرض شدّت اختیار کرلے یا جوڑ ٹیڑھے ہو جائیں، تو پھر انہیں ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ عمومی طور پر معمولی نوعیت والے مریضوں میں سے 15 سے 20 فی صد، سال چھے ماہ تک باقاعدگی سے ادویہ استعمال کرنے کے نتیجے میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ درمیانی اور شدید نوعیت والے مریضوں میں علاج کی مدّت بڑھ جاتی ہے اور انہیں ملٹی ڈرگز دی جاتی ہیں، جن کے ضمنی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے مختلف ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں۔اب اس مرض کا علاج منہگے سے منہگا ہوتا جا رہا ہے۔

بڑے شہروں میں تو پھر بھی صاحبِ ثروت افراد اور کئی اداروں کے تعاون سے مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں خاصی حد تک مفت فراہم ہو جاتی ہیں،مگرچھوٹے شہروں خصوصاً گائوں، دیہات میں صُورتِ حال خاصی ابتر نظر آتی ہے کہ زیادہ تر کیسز میں مرض ہی تشخیص نہیں ہوتا۔ اور اگر مرض تشخیص ہوبھی جائے اور بروقت علاج بھی شروع کردیا جائے، تو مریض فالو اَپ کے لیے نہیں آتے۔ تاہم، اب ٹیلی میڈیسن کی بدولت ان مریضوں سے رابطہ ممکن ہورہا ہے۔

س: پیچیدگیاں کس طرح کی پیدا ہوسکتی ہیں؟

ج: اس مرض کی سب سے بڑی پیچیدگی تو مستقل معذوری ہی ہے۔ اگر 10سال تک علاج نہ کروایا جائے تو مریضوں میں مستقل معذوری کے 50فی صد امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

س: کیا بچّے بھی اس مرض کا شکار ہوسکتے ہیں، اگر ہاں، تو علاج ایک ہی طریقے سے کیا جاتا ہے یا کوئی فرق ہے؟

ج:جی بالکل، یہ مرض بچّوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بچّوں میں اس مرض کی بنیادی علامت جوڑ وں کی سُوجن ہے۔ رہی بات علاج کی، تو زیادہ تر ادویہ اور انجیکشنز ایک ہی طرح کے مستعمل ہیں، البتہ بچّوں اور بڑوں کی ڈوزز میں فرق ہے۔ بچّوں میں ادویہ کی خوراک یا انجیکشن کی مقدار ان کے وزن کے مطابق تجویز کی جاتی ہے اور بچّوں میں بھی یہ مرض قابلِ علاج ہے۔

دورانِ پریکٹس اندرون سندھ سے والدین اپنے تین سالہ بچّے کو ہاتھوں میں اُٹھا کر لائے کہ مرض بچّے کے پورے جسم پر اثر انداز ہو چُکا تھا۔ والدین علاج کی سکت رکھتے تھے، نہ دوبارہ آ سکتے تھے۔ بہرحال، اس بچّے کو مَیں اپنے گھر لے آئی۔ اس کا علاج کیا اور آج الحمدللہ، وہ چَھٹی جماعت میں پڑھ رہا ہے۔ اور ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتا ہے۔اِسی طرح ایک معروف گلوکار کا بیٹا، جو تقریباً فالج زدہ ہوچُکا تھا، اب علاج کے بعد اپنے والد کے ساتھ پروگرامزکرتا ہے۔

س: وہ کون سی احتیاطی تدابیر ہیں، جنہیں اختیار کرکے مرض سے تحفّظ ممکن ہے؟

ج:بعض افراد بہت متحرک زندگی گزارتے ہیں، مگر پھر بھی انہیں ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے، تو یہ مرض بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہاں، یہ ضرور کہوں گی کہ تازہ اور خالص غذائیں استعمال کریں، آلودہ ماحول میں نہ رہیں اور اپنی روح کی غذا کا خاص خیال رکھیں۔ خود بھی خوش رہیں ، دوسروں میں بھی خوشیاں اور آسانیاں بانٹیں۔