پاکستان میں خواتین کی صحت کا جائزہ لیا جائے تو صُورتِ حال تسلّی بخش نظر نہیں آتی۔ اس کا اندازہ اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے، جس کے مطابق امراضِ نسواں میں پاکستان کانمبر 153واں ہے۔ہمارے یہاں60فی صد سے زائد خواتین کسی نہ کسی عارضے کا شکار ہیں، جس کی کئی وجوہ ہیں۔
مثلاً صحت کے مسائل سے لاعلمی، کم عُمری میں شادی، بڑی عُمر میں حمل ٹھہرنا، مختلف عوارض، انفیکشس ڈیزیزز،خون کی کمی ،بچّوں کی پیدایش میں مناسب وقفہ نہ ہونا، حمل ٹھہرنے سے لے کر زچگی تک اور بعد ازاں بھی اپنی صحت کا خیال نہ رکھنا، زچگی کے لیے روایتی دائیوں کو ترجیح دینا، زیادہ بچّوں کی پیدایش اور امتیازی سلوک وغیرہ۔ جب کہ منفی طرزِ زندگی کے باعث بھی صحت سے متعلقہ مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے، عمومی بنیادی معلومات تک ہر عورت کی رسائی ہو، لہٰذا خواتین کے ان ہی اہم مسائل سے متعلق ہم نے معروف گائناکالوجسٹ، پروفیسر ڈاکٹر شاہینہ آصف سے خصوصی بات چیت کی۔
پروفیسر ڈاکٹر شاہینہ آصف نے پاکستان سے طب کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد رائل کالج آف گائناکالوجسٹس لندن، رائل کالج آف فزیشنز، آئرلینڈ سے گائنی کے شعبے کی مزید اسناد حاصل کیں۔ وہ مختلف اوقات میں علّامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور، فاطمہ جناح میڈیکل کالج، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، سروسز اسپتال، بہاول پور میڈیکل کالج، پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور لاہور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں، جب کہ اس وقت دو بڑے نجی تدریسی اسپتالوں کی بانی، سربراہ ہیں۔ تین کتابیں تصنیف کر چُکی ہیں۔ نیز،40 سے زائد مقالات بھی تحریر کیے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہینہ آصف سے ہونے والی نشست کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
س: سب سے پہلے تو یہ بتائیں، پاکستان میں امراضِ نسواں کی مجموعی صُورتِ حال کیا ہے؟
ج: امراضِ نسواں کے اعتبار سے دُنیا بَھر میں پاکستان کا 153واں نمبر ہے، جس کا مطلب ہے کہ طبّی سہولتوں کی فراہمی کے لحاظ سے ڈیڑھ سو سے زائد مُمالک ہم سے آگے ہیں۔ہمارے یہاں 60 فی صد سے زائد خواتین کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہیں، جن میں سے بیش تر علاج معالجہ کروانے کے لیے اپنے گھر کے مَردوں کی محتاج ہیں۔ شادی کے ایک سے دو سال کے اندر حمل نہ ٹھہرنے کی صُورت میں عموماً خواتین ہی کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔
غذا، صحت اور تعلیم کے معاملے میں زیادہ تر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، جو تاعُمر برقرار رہتا ہے۔ اولادِ نرینہ کی خواہش میں بچّوں کی پیدایش کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جو صحت سے متعلقہ کئی مسائل جنم دیتا ہے۔ پھر دیکھا گیا ہے کہ خواتین شادی کے بعد خود بھی اپنا خیال نہیں رکھتیں کہ ان کی اوّلین ترجیح شوہر اور بچّے ہی ہوتے ہیں۔ اپنا آرام و سُکون، گھر کے لیے قربان کر دیتی ہیں، لیکن ایک ایسا معاشرہ، جہاں مَردوں کا تسلّط ہے، اُنہیں اُن کی تمام تر خدمات کا کوئی اچھا صلہ نہیں ملتا۔
س: ہمارے یہاں خواتین میں کون کون سے امراض عام ہیں؟
ج : خواتین میں سب سے عام مرض اینیمیا ہے، جو خون کی کمی کا عارضہ کہلاتا ہے۔ ہمارے یہاں 70فی صد خواتین کو (پوش گھرانوں کے علاوہ) بچپن سے جوانی تک لڑکوں کے مقابلے میں اچھی خوراک میسّر نہیں آتی، جس سے ان کے جسم میں ہیموگلوبن کی مقدار شروع ہی سے کم رہتی ہے۔ خون کی کمی کے سبب مدافعتی نظام بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ اینیمیا کے بعد جوڑوں کا درد اور مختلف اقسام کے انفیکشنز سے ہونے والے امراض بھی عام ہیں۔ جوڑوں کے درد کی ایک وجہ ناقص خوراک کا استعمال ہے، کیوں کہ خواتین کیلشیم کی کمی کا کوئی تدارک نہیں کرتیں اور حاملہ ہونے کے بعد تو خوراک پر بالکل بھی توجّہ نہیں دیتیں۔
حالاں کہ دورانِ حمل اضافی اور صحت بخش خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر خواتین باورچی خانے میں کھڑے ہو کر کھانا بناتی ہیں، پھر انہیں مناسب ورزش کی کمی فربہی کی طرف مائل کر دیتی ہے۔ چوں کہ زیادہ تر خواتین گھر کے کام کاج خود نہیں کرتیں، تو سہل پسندی نے بھی ان کا طرزِ زندگی بدل دیا ہے، جس کے نتیجے میں ذیابطیس یا بُلند فشارِ خون میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔اس کے علاوہ غربت و تنگ دستی کے سبب چھوٹے چھوٹے گھروں میں کئی کئی افراد رہتے ہیں، تو اگر ایک خاتون کو ماہانہ ہارمونک سائیکل کے دوران صفائی ستھرائی نہ رکھنے کے نتیجے میں انفیکشن لاحق ہوجائے، تو دیگر خواتین بھی اس سے متاثر ہوجاتی ہیں۔
صاف پانی کی عدم دستیابی بھی کئی امراض کا باعث بنتی ہے، تو ایسی سبزیاں جن کی کاشت کے لیے صنعتی فضلے والا پانی استعمال کیا جائے، بیماریاں پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، دورانِ زچگی بھی خواتین کی اموات کی شرح خاصی بُلند پائی جاتی ہے کہ پاکستان میں محض زچگی کے دوران ہر ایک ہزار خواتین میں سے چالیس انتقال کرجاتی ہیں،جب کہ ترقّی یافتہ مُمالک میں ہر10لاکھ خواتین میں سے ایک یا دو، وہ بھی کسی حادثے کا شکار ہوکر جان کی بازی ہارتی ہیں۔
پھر ہمارے یہاں5برس کی عُمر تک کے بچّوں میں بھی شرحِ اموات بُلند ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف خواتین ہی نہیں، کم سِن بچّوں کو بھی صحت کی بنیادی سہولتیں میسّر نہیں۔ حالاں کہ ہر دَورِ حکومت میں زچّہ و بچّہ کے لیے علاج معالجے کی جدید سہولتیں فراہم کیے جانے کے بُلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، مگر عملاً کچھ نہیں ہوتا اور صحتِ عامّہ کی یہ صُورتِ حال گزشتہ کئی دہائیوں سے تقریباً ایک ہی جیسی ہے، اس میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اور آبھی کیسے سکتی ہے کہ جب شعبۂ صحت کی مد میں برائے نام بجٹ ہی مختص کیا جاتا ہے۔
س : دورانِ زچگی خواتین کی اموات کے اسباب کیا بنتے ہیں؟
ج : دورانِ زچگی زیادہ تر خواتین زائد خون بہہ جانے کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتی ہیں، کیوں کہ حمل کے دوران خوراک کی کمی اور اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے خواتین میں ہیموگلوبن پہلے ہی کم ہوتا ہے۔ پھر جب انہیں اسپتال لے جایا جاتا ہے، تو خون کا انتظام کرنا ایک مشکل امر بن جاتا ہے۔ دیگر مُمالک میں مریضہ کے ساتھ موجود افراد کو یہ نہیں کہا جاتا کہ ’’جائیں، جاکر پہلے خون کا انتظام کریں۔‘‘ ہمارے یہاں جب عطیۂ خون کی ضرورت پڑتی ہے، تو رشتے دار کتراتے ہیں۔ بلڈ بینکسں کا بھی کوئی منظّم نظام نہیں، ایسے میں پیشہ وَر افراد سے خون کا عطیہ لینا مریضہ کے لیے کئی طبّی مسائل کا سبب، حتیٰ کہ موت کا پروانہ بھی بن جاتا ہے۔
ہمارا ہیلتھ سسٹم انقلابی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اگرچہ اب حکومتِ پنجاب کی جانب سے سر گنگارام اسپتال، لاہور سے متصل جدید سہولتوں سے لیس ایک زچّہ و بچّہ اسپتال تعمیر کیا جارہا ہے، مگر وہ بھی کم از کم دو سے تین سال میں مکمل ہو جائے گا۔ اس اسپتال کے قیام سے بھی زچّہ و بچّہ کی شرحِ اموات میں کمی آنے کے امکانات ہیں، لیکن اگر دیہات اور چھوٹے شہروں میں بیسک ہیلتھ یونٹس کو جدید ترین نظام سے مربوط کرکے علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں اور ادویہ فراہم کر دی جائیں، تو اس شرح میں مزید کمی لائی جاسکتی ہے۔
س: اکثر خواتین حمل کے آخری دِنوں میں مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں تو اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟
ج: مشاہدے میں ہے کہ جب کوئی خاتون حاملہ ہوتی ہے، تو زیادہ تر گھرانوں میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ توایک قدرتی عمل ہے، لہٰذا ابتدائی مہینوں میں گائناکالوجسٹ کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔یہ بجا ہے کہ ماضی میں اچھی اور خالص خوراک کےاستعمال، گھریلو امور خود انجام دینے اور سادہ طرزِ زندگی اپنانے کے سبب حاملہ خواتین کو گائناکالوجسٹس کے پاس جانے کی ضرورت کم ہی پیش آتی تھی اور خاندانی دائیوں کے ہاتھوں بھی صحت مند بچّے پیدا ہوا کرتے تھے، لیکن موجودہ دَور کے مسائل مختلف ہیں۔
جیسا کہ ناقص ،غیر معیاری غذا، ادویہ میں ملاوٹ، نامناسب طرزِزندگی، سہل پسندی، سونے جاگنے کے اوقات میں تبدیلی، ذہنی تناؤ اور ڈیپریشن جیسے دیگر محرّکات کے سبب خواتین مختلف عوارض مثلاً ذیابطیس، ہیپاٹائٹس، بُلند فشارِخون یا کسی اور مرض کا شکار ہوجاتی ہیں، لہٰذا ماضی کی نسبت اب حمل ٹھہرنے کے بعد کم از کم ایک یا دو بار تو معائنہ بہت ضروری ہے، لیکن ہمارے یہاں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ناکافی طبّی سہولتوں اور ہماری اپنی سوچ کی وجہ سے بھی بہت کم خواتین گائناکالوجسٹس کے پاس جاتی ہیں۔
پھر مختلف وجوہ کے سبب بھی خواتین دورانِ حمل متوازن اور اضافی غذا کااستعمال کرتی ہیں، نہ خود اپنا خیال رکھتی ہیں،توان ہی اسباب کی بنا پر اکثر خواتین حمل کے آخری دِنوں میں مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جو خواتین اپنا مکمل خیال رکھتی ہیں، انہیں دورانِ زچگی بہت ہی کم پیچیدگیوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
س :مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی Basic Health Units قائم ہیں، تو کیا ان مراکز میں طبّی سہولتوں کا فقدان پایا جاتاہے یا ان تک رسائی مشکل امر ہے؟
ج :جی، ابتدائی طبّی مراکز موجود تو ہیں، مگر عملاً ان کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں۔ جس کی کئی وجوہ ہیں۔جیسا کہ اکثر معالجین، خصوصاً خواتین محض عدم تحفّظ کے سبب دُور دراز مقامات پر جانے کو تیار نہیں ہوتیں۔ پھر ان مراکز میں ادویہ کی عدم دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، تو دیگر طبّی سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی مراکز میں تو جانور تک بندھے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ ان طبّی مراکز کا کوئی مربوط نظام بھی نہیں کہ کسی ایمرجینسی کیس کو ہنگامی طور پر سنبھال سکیں۔
اسی طرح لیڈی ہیلتھ وزیٹرز بھی عموماً ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوتیں۔ ان حالات میں اگر حاملہ کی حالت بگڑ جائے، تو کسی نزدیکی ڈسٹرکٹ اسپتال یا نجی کلینک تک جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ آڑے آجاتا ہے۔ یوں تاخیر کے سبب اکثر خواتین زائد خون بہہ جانے کی وجہ سے انتقال کرجاتی ہیں۔
س :دائیوں سے متعلق کیا کہیں گی؟
ج: اقوامِ متحدہ نے خواندہ اور تربیت یافتہ دائیوں کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے یہاں یہ شعبہ بھی عدم توجہی کا شکار ہے۔ دیہات میں عموماً نیم خواندہ دائیوں کے ہاتھوں کئی کیس بگڑ جاتے ہیں،لیکن اگر انہیں بھی مخصوص تعلیم و تربیت کی سہولت فراہم کردی جائے، تو ان کے ذریعے بھی محفوظ طریقے سے زچگی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
س: کیا دورانِ زچگی اموات کی شرح دیہات اور شہروں میں یکساں ہے؟
ج: بڑے شہروں میں عموماً خواتین باقاعدہ گائناکالوجسٹس سے معائنہ کرواتی ہیں، تو انہیں حمل ٹھہرنے سے لے کر زچگی تک کے تمام مراحل کے حوالے سے خاصی حد تک معلومات حاصل ہوتی ہیں، اس لیے صُورتِ حال قدرے بہتر ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے زچگی کے دوران زیادہ خون بہہ جائے، تو شہر کے اسپتالوں میں بھی دقّت پیش آتی ہے۔ البتہ دیہات میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ اگر ہم دائیوں اور ہیلتھ وزیٹرز کے ذریعے ہی خواتین میں شعور و آگہی اُجاگر کردیں، تو صُورتِ حال بہتر ہو سکتی ہے۔
طبّی اصطلاح میں زچّہ و بچّہ کی اموات کے لیے"Three Delays"کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ زچگی کے تین مراحل ایسے ہیں، جن میں تاخیر برتی جائے تو وہ ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ پہلی تاخیر دائی کی وجہ سے ہوتی ہے، تو دوسری بروقت ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اور تیسری تاخیر عموماً اسپتال میں ہوتی ہے۔ زیادہ تر سرکاری اسپتالوں میں ایک ایک بستر پر تین یا چار خواتین ڈیلیوری کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ کوئی عورت ٹہل رہی ہوتی ہے، کوئی فرش پر بیٹھی ہوتی ہے۔
دو عورتیں بستر پر لیٹی ہوتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسپتالوں میں گائنی وارڈز میں زیادہ سے زیادہ 60، 70یا 100بستر ہوتے ہیں، جب کہ وہاں روزانہ دو سو زچگیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔جب کہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے تو صوبۂ پنجاب میں زچّہ و بچّہ کے لیے کوئی الگ سے اسپتال تعمیر ہی نہیں کیا گیا۔ پھر جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، اسپتالوں کی صُورتِ حال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اگر صوبے کے ہر ضلعی ہیڈکوارٹر ہی میں گائنی اسپتال تعمیر کر دیئے جائیں، تو شرحِ اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ہماری ہر حکومت کی طبّی پالیسیز زیادہ تر طویل المدّتی ہوتی ہیں، جب کہ صُورتِ حال فوری اور جنگی بنیادوں پر اقدامات کی متقاضی ہے۔
س: کیا یہ سچ ہے کہ بعض گائناکالوجسٹس زچگی کے لیے غیر ضروری طور پر بھی آپریشن کرتی ہیں؟
ج: دُنیا بَھر میں سیزیرین ڈیلیوریز کی شرح 17سے 25فی صد ہے اور ہمارے یہاں بھی کم و بیش یہی شرح ہے۔ پاکستان میں سیزیرین کیسز کی بے شمار وجوہ میں سرِ فہرست دورانِ حمل گائناکالوجسٹ سےمعائنہ نہ کروانا اور زچگی کے لیے تاخیر سے اسپتال یا کلینک لانا ہے۔ ممکن ہے، بعض گائناکالوجسٹس غیر ضروری طور پر سرجری کرتی ہوں، لیکن مجموعی طور پر صرف ایمرجینسی کی صُورت ہی میں آپریشن کیا جاتا ہے۔
س: کیا یہ تاثر درست ہے کہ ماؤں میں بچّوں کو اپنا دودھ پلانے کا رجحان کم ہو رہا ہے؟
ج: پہلے شہروں میں بچّوں کو اپنا دودھ نہ پلانے کا رجحان پایا جاتا تھا، لیکن اب دیہات میں بھی عام ہورہا ہے۔ پھر معاشرے میں رائج بعض غیر حقیقی تصوّرات کے سبب بھی مائیں، بچّوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی ہیں، جیسا کہ اگر نومولود زیادہ روئے یا بار بار بیمار پڑے تو کہا جاتا ہے کہ ماں کا دودھ مضرِصحت ہےاور کئی گھرانوں میں تو ماں کے دودھ کا معیار جانچنے کے لیے اس میں کیڑا مکوڑا ڈال دیا جاتا ہے کہ اگر وہ مَرگیا، تو مطلب دودھ زہریلا(مضرِ صحت) ہے،اس لیے بچّہ ماں کا دودھ نہ پیے۔
حالاں کہ اگر مکوڑا پانی میں بھی ڈال دیں، تو وہ مَر جاتا ہے۔ بعض مائیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ اپنا دودھ پلانے سے جسم بے ڈول ہو جاتا ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اپنا دودھ پلانے سے نہ صرف جسم متناسب رہتاہے، بلکہ نومولود میں قدرتی طور پر قوّتِ مدافعت پیدا ہوتی ہے، جو تا عُمر اُس کا ساتھ دیتی ہے۔ اب تو عالمی ادارۂ صحت بھی بچّوں کو ڈبّے کا دودھ پلانےکے حق میں نہیں،جب کہ ڈبّے کے دودھ کے اشتہارات پر بھی پابندی عاید کردی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی ان کی اشتہاری مہم پر پابندی ہے، لیکن مائیں پھر بھی مِلک پائوڈر استعمال کر رہی ہیں۔
بہرحال، اس ضمن میں ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں،کیوں کہ غذائی اعتبار سےماں کے دودھ کا کوئی بدل نہیں کہ اس کی افادیت کا ذکر قرآنِ پاک میں بھی کیا گیا ہے۔ ماں کا دودھ پینے سے نوزائیدہ کی نفسیاتی، جذباتی اور جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر مائیں ڈبّے کےدودھ پر درج ختم المیعاد کا خیال نہیں رکھتیں اور7دِن استعمال کرنے کے بجائے اس میں پانی ملا کر پورا مہینہ استعمال کرتی ہیں، جس سے بچّوں کی نشوونما متاثر ہوجاتی ہے۔ پھر میٹرنٹی ہومز کو بھی’’بے بی فرینڈلی‘‘ ہونا چاہیے اور مائوں کو اپنا دودھ پلانے کی ترغیب دینی چاہیے۔
س: کیا کووِڈ-19 حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے؟
ج: جی بالکل، کورونا وائرس حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، لہٰذا تمام حاملہ خواتین اپنے معالج کے مشورے سے فوری ویکسی نیشن کروائیں، تاکہ وائرس سے متاثر ہونے کی صُورت میں پیچدگیوں سے محفوظ رہا جاسکے۔
س: خواتین کو صحت مند رہنے کے لیے کیا مشورہ دیں گی؟
ج: عام طور پر خواتین اہلِ خانہ کےکھانے پینے اور آرام کا تو بہت زیادہ خیال رکھتی ہیں، مگر اپنی صحت کی طرف سے غفلت برتتی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ایک صحت مند معاشرے کو پروان چڑھانے کے لیے ماں کا صحت مند ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مَیں خواتین کو یہی مشورہ دوں گی کہ صحت مند طرزِ زندگی کریں، خاص طور پر دودھ کا باقاعدہ استعمال کیا جائے۔ پھل اور سبزیاں اچھی طرح دھو کرزیادہ سے زیادہ کھائیں۔ باقاعدہ ورزش بھی کریں،مرغّن، مرچ مسالے دار اور کولیسٹرول کی مقدار میں اضافے کا سبب بننے والی اشیاء کے استعمال میں احتیاط برتیں۔
اگر پینے کے صاف پانی کی سہولت دستیاب نہیں تو نل کے پانی کو ململ کی کئی تہوں سے چھان کر اُبال لیں اور ٹھنڈا کر کے استعمال کریں۔حمل ٹھہرنے کی صُورت میں پہلے 7ماہ کے دوران کم از کم دو یا تین بار، لیکن آخری مہینوں میں ایک بار لازماً گائناکالوجسٹ سے معائنہ کروائیں، کیوں کہ آخری مہینوں میں پیچیدگیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
دورانِ حمل گھر کے کام کاج لازماً کریں، اس سے سے دوران خون بہتر ہوتا ہے اور زچگی میں بھی آسانی رہتی ہے۔ خون کی کمی سے بچنے کے لیے کسی گائنا کالوجسٹ کے مشورے سے ادویہ استعمال کریں اور زچگی کے لیے معیاری اسپتال منتخب کریں،جہاں تمام تر ضروری طبّی سہولتیں میسّر ہوں۔