میں مرنے سے کب ڈرتی ہوں

December 27, 2021

یوں تو پاکستان کی تاریخ آمروں کے مظالم اور ان کے خوفناک نتائج سے بھری پڑی ہے جس میں سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی شامل ہے لیکن یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ سفاک آمر ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ جب جمہوریت اور انسانی حقوق کے مطالبے پر قیدو بند ، کوڑے اور پھانسیوں کی سزائیں معمول کا حِصّہ تھیں بلکہ بیسویں صدی میں شائد پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں سرِ عام کوڑے مارے جاتے تھے اور مائیک کوڑے کھانے والے کے منہ کے آگے رکھ دیا جاتا تھا تاکہ اس کی چیخیں سن کر عوام خوف اور دہشت سے سہم جائیں۔ یہی نہیں ایک بچے پپو کے قاتل کو سرِ عام پھانسی بھی دی گئی، ان تمام مظالم کا مقصد صرف ایک تھا کہ جمہوریت کی علامت ، عوام کے مقبول ترین رہنما اور پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عوامی ردِّ عمل کو خوف میں تبدیل کردیا جائے۔ ایسے میں جب ایک عظیم لیڈر کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تھا تو دوسری طرف ایک اور عظیم لیڈر کا جنم ہو رہا تھا جس کا نام تھا محترمہ بے نظیر بھٹو۔ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹوکے نظریات اور قربانیوں سے محبت کرنے والے محنت کش عوام نے محترمہ کو بھٹو کی تصویر قرار دے کر اپنی محبوب رہنما بنا لیاکیونکہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ ایک سیاسی رہنما نے عوام اور جمہوریت کی خاطر جان کی قربانی دی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہی اسکی نازو نعم سے پلی ہوئی چوبیس سالہ نوجوان بیٹی ، اس کے خون میں ڈوبے ہوئے پرچم کو لیکر مصائب کےکٹھن راستوں پر ایک طویل اور صبر آزما سفر پر روانہ ہو گئی، وہ محترمہ بیگم نصرت بھٹو کے بطن سے پیدا تو 21جون 1953کو ہوئیں لیکن ان کا سیاسی جنم 5جولائی 1977ء کو ہوا۔ وہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی لیڈر تھیں جنہوں نے خاتون ہونے کے باوجود اپنے سیاسی سفر کا آغاز ایک جابر فوجی ڈکٹیٹر کے دورِ ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے کیا اور اس راستے میں وہ مصائب برداشت کیے جن کا آج کی نسل تصوّر بھی نہیں کر سکتی۔

اس وقت کے ظالم حکمرانوں نے انہیں اور ان کی والدہ کو بھٹو شہید کے آخری دیدار سے بھی محروم رکھا۔10اپریل 1986ء کو اپنی پہلی جلا وطنی سے واپسی پر جب محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور تشریف لائیں تو ملک بھر سے آئے ہوئے لاکھوں جمہوریت پسندوں نے لاہور ائرپورٹ سے لے کر مینارِ پاکستان تک ان کا ایسا فقیدالمثال استقبال کیا جس کی مثال پورے برّ صغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اپنی تقریر کے آخرمیں انہوں نے ایک نظم ’’ میں باغی ہوں‘‘ پڑھی مگر کچھ اس طرح کہ اس نظم کا آخری بند انہوں نے سب سے پہلے پڑھا۔ جس میں موت کا ذکر تھا اور پھر باقی نظم پڑھی شائد ان کے لاشعور میں یہ خیال یقین کی طرح سمایا ہوا تھا کہ ایک دن وہ بھی اپنے بابا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان اپنے عوام پر قربان کر دیں گی۔ وہ آخری بند یوں تھا۔

میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہےo میرے سر پر ظلم کا پھندا ہےo میں مرنے سے کب ڈرتی ہوںoمیں موت کی خاطر زندہ ہوںoمیرے خون کا سورج چمکے گاoتو بچہّ بچہّ بولے گاoمیں باغی ہوں، میں باغی ہوںoجو چاہے مجھ پر ظلم کرو

ضیاالحق ایک ہوائی حادثے میں جان بحق ہو گئے۔ مگران کی باقیات نے محترمہ کا راستہ روکنے کیلئے سازشوں کے جال بچھا دئیے ۔ آئی جے آئی کی تشکیل ، پیپلز پارٹی کے روایتی انتخابی نشان تلوار کی تنسیخ اور شناختی کارڈ کی پابندی جیسے کئی اقدامات کے ذریعے ان کی اکثریت کے سمندر کو ایک ندی میں محدود کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جو یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ آج تک عام انتخابات میں اس نے جو نشستیں حاصل کیں ، وہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود اپنے بل بوتے پر حاصل کیں۔ اپنے پہلے ڈیڑھ سالہ محدود اختیارات والے اقتدار کے دوران بھی محترمہ نے پاکستان میں ضیاء دو ر کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کیا، یونین سازی پر سے پابندیاں ہٹائیں ، خواتین کے لیے لیڈیز پولیس اسٹیشنز اور فرسٹ وومن بینک کا آغاز کیا اور بھٹو شہید کے ایٹمی پروگرام کی طرح پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی کے ذریعے دفاعی لحاظ سے مضبوط بنایا۔ ان کے دونوں ادوار کو وقت سے پہلے ختم کردیا گیا لیکن جبر کی طاقتیں عوام کے دلوں سے محترمہ کی محبت نہ نکال سکیں۔ دوسری جلا وطنی سے وطن واپسی پر ان کے استقبالی جمِ غفیر کو آگ اور خون سے نہلا دیا گیا۔ جس میں وہ تو معجزانہ طور پربچ گئیں لیکن سینکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہو گئے۔ قاتلوں نے مگران کا پیچھا نہیں چھوڑا اور بالآخر 27دسمبر2007کو لیاقت باغ کے ایک جلسہء عام کے بعد انہیں شہید کردیا وہ آج ہم میں نہیں مگر ان کے خون کے چمکتے ہوئے سورج نے فوجی آمریت کے اندھیروں میں روشنی کا جو شگاف ڈالا ہے وہ ان کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک دن پوری آب و تاب سے چمکے گا۔ انشاء اللّٰہ