عمرانی معاہدہ تار تار

January 21, 2022

مارشل لا کے نفاذ کے ایک روز بعد چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے قوم سے خطاب کیا۔ مَیں اُن دنوں ایم اے پولیٹکل سائنس کا طالبِ علم تھا اور مجھے فائنل ایئر میں ’جماعتِ اسلامی کے انتخابی منشور‘ پر مقالہ لکھنا تھا۔ میری رہائش رحمٰن پورہ میں تھی اور مَیں نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا خطاب اہلِ محلہ کے ساتھ سنا تھا۔ اُنہوں نے تفصیل سے بتایا کہ سیاست دانوں نے اپنی بداعمالیوں سے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہمارے عوام ابھی اِس قابل نہیں کہ اُنہیں ووٹ کا حق دیا جائے۔ پارلیمانی نظام کے باعث شدید عدم استحکام پیدا ہوا اَور مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اُنہوں نے کہا کہ مارشل لا کا نفاذ ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہو گیا تھا۔ اب ہم اپنے اہلِ وطن کو ایک صاف ستھرا اَور پائیدار سیاسی نظام دیں گے جو اُن کے مزاج سے ہم آہنگ ہو گا۔ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کو سخت سزائیں دی جائیں گی جو ملکی معیشت سے جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ اب دکانوں کے آگے جالیاں لگی ہوں گی اور اَشیائے صرف کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ اہلِ محلہ نے اُن کے فرمودات پر غیرمعمولی خوشی کا اظہار کیا، لیکن میرا دِل بیٹھا جا رہا تھا اور میری زبان پر بےاختیار یہ جملہ آ گیا کہ یہ تو علیحدگی کی بنیاد اُستوار کی جا رہی ہے۔

جماعتِ اسلامی کا مرکز اُن دنوں 5۔ذیلدار پارک، اچھرے میں تھا۔ مَیں وہاں گیا، تو سید ابوالاعلیٰ مودودی اور اُن کے چند رفقا سے ملاقات ہوئی۔ وہ گہری تشویش کا اظہار کر رہے تھے کہ مارشل لا کے نفاذ اور سیاسی جماعتوں پر پابندی سے پاکستان کے دونوں حصّوں میں ناقابلِ عبور دُوریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ خطرہ یہ بھی ہے کہ وہ سارے تنازعات ازسرِنو اُٹھ کھڑے ہوں گے جو 1956 کے دستور میں طے ہو چکے تھے۔ اِس ملاقات کے دوران مجھے وزیرِاعظم سہروردی کی وہ تقریر یاد آئی جو اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے ہال میں کی تھی۔ یونیورسٹی طالبِ علم کے طور پر مجھے اُسے سننے کا موقع ملا تھا۔ اُن دنوں اُن پر مختلف حلقوں کی طرف سے شدید نکتہ چینی کی جا رہی تھی کہ اُنہوں نے اقتدار کی خاطر اصولوں پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔ سہروردی صاحب نے اپنی نوے منٹ کی تقریر میں پوری صراحت سے بتایا تھا کہ 1956 کے دستور میں مشرقی پاکستان کو 98 فی صد خودمختاری دی گئی ہے اور بنگلہ بھی قومی زبان تسلیم کر لی گئی ہے۔ یہ بھی کہا کہ ون یونٹ سیاسی اور آئینی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ مجھے اُن کی تقریر پر خوشی کے ساتھ ساتھ قدرے حیرت بھی ہوئی، کیونکہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر اُنہوں نے 1956 کے آئین اور وَن یونٹ کی سخت مخالفت کی تھی۔ اِس تبدیلی کو وُہ عملی فراست سے تعبیر کرتے تھے۔

چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے بیس روز بعد صدر اسکندر مرزا کو ایوانِ صدر سے بےدخل کر کے صدارت کا منصب خود سنبھال لیا اور صدارتی طرزِ حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ ’ایبڈو‘ کے تحت قدآور سیاسی شخصیتیں نااہل قرار پائیں اور بڑی تعداد میں اعلیٰ سرکاری افسر فارغ کر دیے گئے۔ ملک بھر میں اصلاحات کا ایک سیلاب اُمڈ آیا۔ نئے دستور کے خدوخال 1961 ہی میں واضح ہو گئے تھے۔ تمام اختیارات صدر کی ذات میں مرتکز کیے جا رہے تھے۔ عوام سے اپنے نمائندوں کو براہِ راست منتخب کرنے کا حق چھین لیا گیا تھا اور بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان عملاً سیاسی اقتدار سے محروم ہو رہا تھا۔ اُس کی اسمبلی، اُس کے وزیر اور اُس کے عوام فیصلہ سازی کے عمل سے بےدخل ہو چکے تھے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تشکیل پائے جانے والے دستور پر صحافیوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا۔ اُن میں نوائےوقت کے ایڈیٹر حمید نظامی بھی شامل تھے۔ مولانا نے واضح کیا کہ نئے آئین کا مسودہ حددرجہ مایوس کُن ہے، لیکن ہم اِس کے نفاذ سے مارشل لا سے چھٹکارا پا لیں گے اور عوامی دباؤ بڑھا کر اِس کے اندر مطلوبہ تبدیلیاں بھی لا سکیں گے، لیکن حمید نظامی تابڑتوڑ سوالات کے ذریعے مولانا کی طرف سے دستور کو فوری طور پر مسترد کر دینے کا اعلان چاہتے تھے، لیکن مولانا اپنے موقف پر قائم رہے کہ تصادم سے بہت خون خرابہ ہو گا۔ کچھ ہی روز بعد عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی کی قیادت میں مشرقی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے دستور کو مسترد کرتے ہوئے چٹاگانگ سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ اِس اعلان پر مولانا بےحد مضطرب ہوئے کہ حکمرانوں کی منفی روش کے نتیجے میں صرف ایک بازو سے اُٹھنے والی آواز پاکستان کے دونوں حصّوں میں سیاسی دوری کا باعث بنے گی، چنانچہ اُنہوں نے فوری طور پر سہروردی صاحب کو پیغام بھیجا کہ آپ جلدبازی سے کام نہ لیں، کیونکہ دستور کو کُلی طور پر مسترد کرنے سے سنگین نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ سہروردی صاحب نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر مولانا کا مشورہ قبول کر لیا اور وُہ کراچی چلے آئے۔ پھر وسیع مشاورت کے بعد جناب سہروردی اور مولانا مودودی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ قائم ہوا جو پاکستان کی تمام قابلِ ذکر جماعتوں کی نمائندگی کرتا تھا۔

فرنٹ کا تاریخی اہمیت کا اجلاس کراچی میں سہروردی صاحب کی بیٹی اختر سلیمان کے گھر پر 27 فروری 1962 کو منعقد ہوا جس میں چوٹی کے 30 کے لگ بھگ سیاست دان شریک ہوئے۔ اُنہوں نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے بنیادی حقوق، مکمل جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ اِس ’جرم‘ میں 9 سیاسی لیڈروں کے خلاف بغاوت کے مقدمے قائم ہوئے اور وُہ گرفتار کر لیے گئے۔ اُن میں میاں طفیل محمد، نوابزادہ نصراللہ خاں، محمود علی قصوری، محمود الحق عثمانی، عبدالحمید سندھی، عطاء اللّٰہ مینگل، مولانا عبدالستار خاں نیازی، زیڈ ایچ لاری اور چوہدری غلام محمد شامل تھے۔ اِن گرفتاریوں سے دونوں بازوؤں کے عوام ایک جان ہو کر بنیادی آزادیوں کے لیے سرگرم ہو گئے۔ اِس طرح وقتی طور پر ایک صوبے تک تحریکِ مزاحمت کے محدود ہو جانے کا خطرہ ٹل گیا، مگر وہ اَشخاص اور عوامل بدستور فعال رہے جو حکمران طبقے میں ذہنی، فکری اور سیاسی گمراہی پھیلا رہے تھے۔ اُن پردہ نشینوں اور بزرجمہروں کا ذکر اگلے اظہاریے میں پڑھیے۔