بہت خوب جناب وزیراعظم

January 21, 2022

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے پاس مجبوری میں جاتے ہیں اور ان کی شرائط ماننےکیلئے عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔جب شرائط مانتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سیکورٹی کمپرومائز ہوتی ہے،معیشت کمزور ہو گی تو دفاع بھی کمزور ہو گا،ہماری مسلح افواج ہمارا فخر ہیں جس طرح سیکورٹی فورسز نے ہمیں محفوظ رکھا اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

دہشت گردی کےخلاف جنگ میں ہماری فورسز نے پاکستان کو محفوظ کیا،کوشش ہے عوام اور ریاست ایک راستے پر چلیں،ماضی میں ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا گیا، قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی بھی ملک خوشحال نہیں ہو سکتا۔جب عوام ملک بچانےکیلئے اسٹیک ہولڈر بن جائیں تو یہ سب سے بڑی نیشنل سکیورٹی ہوتی ہے۔وہ گزشتہ دنوں پہلی قومی سلامتی پالیسی کے عوامی ورژن کے اجرا کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

بہت خوب جناب وزیراعظم ! آپ نے تو اصل سچ بیان کردیا، کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ساتھ ہی اظہار بے بسی بھی کردیا، پاک فوج کو خراج تحسین بھی پیش کردیا اور یہ بھی لگے ہاتھوں بتادیا کہ معیشت کمزور ہوگی تو ہمارا دفاع بھی کمزور ہوگا، یہ نہیں بتایا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر دفاع کو کس قدر مضبوط کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس ادارے کی سخت ترین شرائط تو شاید ایک دھیلا بھی دفاعی مقاصدکیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔

قرضے کی رقم تو قرضے کے سود کی ادائیگی میں ہی غرق ہوجاتی ہے جیسا کہ وزیراعظم کئی بار کہہ بھی چکے ہیں کہ قرضہ نہ لیں تو پہلے سے لیے گئے قرضوں کے سود کی رقم کہاں سے ادا کریں۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو دباؤ میں لایا جارہا ہے۔

ماضی میں برسراقتدار آنے سے قبل وزیر اعظم نے قوم کو جن حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے سابق حکمرانوں کو چور ڈاکو اورلٹیرا قراردیا تھا انہیں ملک کا بال بال قرضے میں جکڑنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

برسراقتدار آکر انہوں نے بھی وہی سب کچھ کیا جو ان کے پیش رو حکمران باامر مجبوری کرتے چلے آئے تھے۔ یہ درست ہے کہ سابق ادوار میں بھی قوم مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ تھی یہاں تک کہ نوازشریف نے جب دو ہزار تیرہ میں اقتدار سنبھالا تو تین ماہ کے بعد ہی ستمبر میں ہی یہ شہ سرخیاں لگ گئی تھیں کہ” شیر “نے تباہی مچادی اور تین ماہ میں مہنگائی کے ریکارڈ بن گئے، پٹرول اٹھانوے روپے سے ایک سو دس روپے لیٹر ہوگیا تھا۔ آٹا سینتیس روپے سے چھیالیس روپے فی کلو ہوگیا تھا آج شومئی قسمت کہ اسی روپے کے قریب چلا گیا ہے اور صارفین کی مسلسل نکلنے والی چیخیں دب سی گئی ہیں۔ رلایا تو اس قدر گیا ہے کہ اب بے چارے ہم جیسے عوام کی ہچکیاں ہی ختم ہوگئی ہیں۔

آج وزیر اعظم نے اعتراف کرلیا ہے کہ ان کے پاس اختیار نہیں بلکہ وہ بے بس ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ملکی سلامتی کے امور کو آئی ایم ایف کے ہاتھ دے دیا گیاہے۔وزیر اعظم نے کئی ایک حقائق کا بھی اعتراف کیا، یہ بھی کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم کے تین نظام چل ر ہے ہیں جس کے باعث بڑے منفی نتائج کا سامنا ہے، پہلی بار ملک میں پانچویں جماعت تک یکساں تعلیمی نصاب لائے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس یکساں نظام تعلیم کو ایک مخصوص ایلیٹ کلاس نے تو تسلیم ہی نہیں کیا، نئی کتابوں کو بھی نہیں مانا جارہاہے۔

سندھ بھی یکساں نظام تعلیم کیخلاف ہے۔ دوہرا تہرا نظام تعلیم اب بھی چل رہا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ قانون پر عملدرآمد پاکستان کیلئے سب سے بڑاچیلنج ہے، مثال دی کہ سوئٹزرلینڈ قانون کی بالادستی کی بدولت سیاحت میں اوپر چلاگیالیکن وزیر اعظم کو دیکھنا ہوگا کہ وہ اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔

اگر وہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں کرسکے تو وہ کس سے شکوے کرتے پھررہے ہیں۔ سب اختیار تو ان کے ہاتھ میں ہے، فوج بھی انکے ساتھ ایک پیج پر ہے، ملکی سلامتی کے تمام ادارے ان کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں پھر ان کا اظہارِ بے بسی کیا پیغام دے رہا ہے وہ تو کسی سے بلیک میل نہیں ہوتے نہ ہی انکے کارخانے ہیں، وہ تو مسٹر کلین ہیں۔ ان کے کارباری مفادات ہیں نہ ہی وہ کسی غیر ملکی اشارے پر چل رہے ہیں۔

امریکہ کیساتھ انہوں نے دو ٹوک بات کی، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ملک کے مفاد کو اولیت دی۔ امریکی صدر سے اب تک انکی براہ راست بات چیت نہیں ہوئی تو انہوں نے اس پر کسی پریشانی اور پشیمانی کا اظہار نہیں کیا، وہ کبھی کسی کے سامنے جھکے نہیں، بِکے نہیں پھر وہ ملک کے اندر ان مافیاز کے سامنے بےبس کیوں ہیں جو انہیں ووٹ کے نام پر بلیک میل کرتے اور آنکھیں دکھاتے ہیں؟