سچا دور اور چاچا لکھی

August 30, 2013

ماضی کی یاد ہر شخص کے لئے مختلف احساسات کا باعث بنتی ہے اور یہ احساسات کسی بھی شخص کے گزرے ہوئے وقت کی مخصوص نوعیت پر منحصر ہوتے ہیں۔ شاعرانہ خیال کی پرواز اپنی جگہ مسلّم مگر شاعر کے اس مصرع ”یادِ ماضی عذاب ہے یارب “سے بصد احترام اختلاف کرنے کا حق ہم بہرحال محفوظ رکھتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں تو زیادہ تر لوگوں کو اپنے ماضی کی یادوں کے ساتھ بہت زیادہ جذباتی لگاؤ ہوتا ہے۔ چاہے یہ ماضی کتنا ہی”تھکا ٹُٹا“ کیوں نہ ہو۔ ماضی سے اس جذباتی لگاؤ کے معاملے میں شاید بہت کم لوگ مستثنیٰ ہیں۔ان میں کچھ تو ایسے ”نودولتیے“ شامل ہیں جو کہ دولت ہاتھ لگ جانے کے بعد اپنے عزیز رشتہ داروں تک کو بھی بھول جاتے ہیں یا پھر کچھ ایسے”محنت کار“ شامل ہیں جو کسی گاؤں سے اپنا ”محنت کاری“ کا لیبل اتارنے اور اپنا سماجی مرتبہ بڑھانے کے لئے نقل مکانی کر کے کسی شہر میں آکر چوہدری بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے یادِ ماضی واقعی عذاب ہوتا ہے۔ چند دن پہلے ہمیں ایک دوست سے ملنے ایک گاؤں جانے کا اتفاق ہواتو وہاں ڈیرے پر بیٹھے ایک بہت دلچسپ اور سمجھدار بزرگ سے ہماری ملاقات ہوگئی۔بزرگ اپنی عمر کی کوئی اسّی سے اوپر بہاریں دیکھ چکے تھے۔ان کا اصل نام تو محمد بخش تھا مگر پورا گاؤں انہیں چاچا لکھی کے نام سے پکارتا تھا۔باتوں باتوں میں ہم نے چاچا لکھی سے کہا کہ بزرگو اپنے بچپن کے زمانے کے بارے میں کچھ بتائیں کہ کیسا دور تھا،رہن سہن اور رسم ورواج کیسے تھے۔کہنے لگے پتر کیا بتاؤں بڑا سچا دور تھا ۔آج کل کے زمانے کی خرافات کہاں تھیں!!پھر ہم سے پوچھنے لگے آپ پولیس میں ہیں؟ جب ہم نے ہاں میں جواب دیا تو حقہ پیتے ہوئے چاچا لکھی حقے کی ”نڑی“ اپنی دائیں گال میں چبھو کر کسی گہری سوچ میں چلے گئے۔جیسے انہیں ہماری بات پر یقین نہ آرہا ہو ۔ہم نے پوچھا چاچا کیا ہوا۔کہنے لگے کچھ نہیں ۔آپ کہتے ہیں تو پھر ہوں گے پولیس میں۔کہنے لگے ہمارے زمانے میں تو پولیس والے ایسے نہیں ہوتے تھے۔ہم نے پوچھا کیسے ہوتے تھے ؟ فرمایا مجھے آج تک یاد ہے کہ آج سے کوئی چالیس سال قبل ایک تھانیدار ایک دفعہ منشاء نمبر دار کے ڈیرے پر آیا تھا۔گاؤں کے تما م لوگ وہاں جمع تھے۔تھانیدار نے آتے ہی سب سے پہلے ٹھڈا مارکے دو چارپائیوں کو الٹا کر دیا پھر پانی سے بھرے مٹکے کو ٹھوکر مارکے توڑ دیا۔ وہاں موجود تمام لوگ سہم کر رہ گئے تھے۔کہنے لگے مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ایک دفعہ کسی نے گاؤں میں آکر اطلاع دی کہ پولیس کا ایک سپاہی تھانے سے روانہ ہے اور اس کا رخ گاؤں کی طرف ہے۔ یہ سننا تھا کہ گاؤں کے تمام مرد قریب کے کھیتوں میں جاکرچھپ گئے۔حتیٰ کہ کچھ نے تو درختوں پر چڑھ کر اپنے آپ کوچھپانے کی کوشش کی۔ بڑا رعب اور دبدبہ تھا جی پولیس کا۔ وہ تو الله بھلا کرے ایک بچے کا جس نے شام کو آکر اطلاع دی کہ وہ سپاہی تو اگلے گاؤں چلا گیا ہے۔تب جاکر گاؤں کے لوگ واپس گھروں کو لوٹے۔بڑا سچا دور تھا جی۔ آج کل کی خرافات کہاں تھیں!!کہنے لگے گھر کے تمام لوگ آپس میں بہت پیار محبت سے رہتے تھے۔ اتنا پیار محبت اور خلوص تھا کہ گھر کے تمام جی ایک ہی کمرے میں سوتے تھے ۔ جب میری شادی ہوئی تو پہلے تین سال تک بشیرے(بیٹا) کی ماں بھی میرے ماں،باپ،اور تمام بہن بھائیوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتی رہی۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ دوسرے کمرے کا مطالبہ کرے۔ شرم اور حیا تھی۔ جب یہ بشیرا پیدا ہواتو تب جاکے ہم نے اپنے لئے دوسراکمرہ بنوایا ۔ کہنے لگے خدا گواہ ہے کہ میں نے بشیرے کی ماں کے ساتھ شادی کے بعد کافی سالوں تک گھر والوں کی موجودگی میں کبھی بات بھی کی ہو تو۔(ہم سوچ رہے تھے کہ شادی افہام و تفہیم سے ہوئی ہو گی یا چاچا دلہن کو بھگا کر لائے ہوں گے)آج کا زمانہ دیکھو کہ پچھلے دنوں بشیرے کی شادی ہوئی اور پہلے ہی دن نئے کمرے میں شفٹ ہوگیا اوراب روزانہ”کھیسے“ میں مٹھائیاں چھپا چھپا کے بیوی کو کھلاتا رہتا ہے۔ رن مرید بن کے رہ گیا ہے۔اگلے دن آکے نگوڑا کہنے لگا کہ میں نے ہنی مون منانے مری جانا ہے۔ ہم نے اجازت بھی دے دی مگر صرف اتنا کہا کہ چھوٹی بہن پینو کو بھی ساتھ لے جا۔اس نے مری نہیں دیکھاوہ بھی مری کی سیر کرلے گی۔بس اتنی ہی بات پر سیخ پاہوگیا اور ٹکاسا جواب دے دیا۔پتر بڑا سچا دور تھاجی۔آج کل کی خرافات کہاں تھیں!!کہنے لگے پتر ہمارے زمانے میں گاؤں میں گندم کی بھی بڑی قلت ہوتی تھی۔سارا سال جوار اور باجرہ کھا کر ہی گزارہ کرتے تھے۔گندم کا ایک توڑا کہیں چھپا کے رکھا ہوتا تھا ۔بس کوئی مہمان آگیا تو استعمال کرلی یا پھر عید، شب رات پر ہی پکا لیتے تھے۔گاؤں میں آٹا پیسنے والی چکی بھی نہیں ہوتی تھی۔ایک دفعہ پورے ڈیڑھ من کا دانوں کا توڑا کندھے پر رکھ کر پانچ کلو میٹر دور ساتھ والے گاؤں میں پسوانے کیلئے گیا۔وہاں دوپہر کو کھانے کیلئے کچھ نہیں ملا تو پانی کے کٹورے میں آٹا ڈال کے محلول بنایا اور پی لیا۔ سارا دن کھیتوں میں ہل چلا کے گزر جاتا تھا اور دوپہر کو” لنچ“ میں پیاز یا پھر گُڑ کے ساتھ روٹی کھا لیتے تھے ۔ گوشت صرف عید یا کسی شادی بیاہ پر ہی ملتا تھا ۔ آج کل کی طرح لباس میں بھی فیشن کے نام پر بیہودگی نہیں تھی ۔ لوگ بڑا سادہ اور سستا لباس پہنتے تھے ۔ کہنے لگے سچ پوچھیں تو اپنا بشیرا پانچوں کلاس تک صرف ایک ”چولے “ میں ہی اسکول جایا کرتا تھا ۔ ”ستھن “تو اس نے 10سال کی عمر کے بعد پہننا شروع کی۔ بڑا سچا دور تھا جی۔آج کل کی خرافات کہاں تھیں۔کوئی دھوکہ فراڈ نہیں تھا۔ لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے ایثار اور ہمدردی کے جذبات تھے ۔زندگی میں صرف ایک دفعہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا تھا۔ہوا یوں کہ ایک دفعہ ساتھ والے شہر میں پیشی کیلئے گیا تو واپسی پر بشیرے اور پینو کیلئے قلفیاں لے کر اپنی ”دھوتی“کی ڈھب کے ساتھ باندھ دیں۔ شام کو گھر آیا تو صرف”کانے“ بچے ہوئے تھے، قلفیاں نہیں تھیں۔ دکاندار نے دھوکہ کیا تھا جی۔گاڑیوں اور بسوں کا رواج بھی نہیں تھا۔تیس چالیس کلو میٹر کا فاصلہ تو آرام سے پیدل طے کر لیتے تھے۔ٹی وی ، اے سی اور فریج جیسی مشینیں پورے گاؤں میں کہیں بھی نہیں تھیں ۔پورے گاؤں میں صرف دو ریڈیو سیٹ ہوتے تھے۔گاؤں کے مرد رات کو نمبر دار منشاء کے ڈیرے پر جمع ہوکر ریڈیو پر خبریں سنتے تھے اور ملکی حالات پر تبصرہ بھی ہوتا تھا۔پورے گاؤں میں صرف دو پڑھے لکھے آدمی تھے۔پورا گاؤں اپنی چٹھیاں لکھوانے اور پڑھوانے کے لئے ان کے پاس ہی جاتا تھا۔بڑا سچا دور تھا جی۔آج کل کی خرافات کہاں تھیں!! ہم نے چاچا لکھی سے گاؤں میں موجود سہولتوں کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے پتر کہاں کی سہولتیں ۔گاؤں میں بجلی نہیں ہوتی تھی اور لوگ دوپہر کو آرام کرنے کیلئے گھر کے ساتھ والے کیکر کی چھاؤں میں پڑے رہتے تھے اور سورج کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ چھاؤں بھی ڈھلتی تھی تو ہم چارپائیاں بھی ساتھ ساتھ کھسکاتے رہتے تھے۔گھروں کی چاردیواریاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ آج کل کی طرح پانی گھر گھر نلکوں میں کہاں آتا تھا۔ برسات کے موسم میں پانی کھیتوں اور تالابوں میں جمع ہو جاتا تھا جو سال بھر مال ڈنگر اور لوگوں کے لیے کافی ہوتا تھا ۔ کہنے لگے گھروں میں یہ آج کل کے زمانے والی باتھ رومز کی خرافات بھی نہیں ہوتی تھیں۔ گاؤں کے مرد اور عورتیں صبح صبح منہ اندھیرے قضائے حاجت کیلئے کھیتوں کا رخ کرتے تھے۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتا تھا کہ ایک آدمی قضائے حاجت کیلئے کسی جھاڑی میں گھسنے لگا تو وہاں پہلے سے موجود آدمی ایک ہلکا سا”کَھنگورا“مارکر اپنی موجودگی کی اطلاع دے دیتا تھا۔اتنی شرم حیا موجود تھی کہ دوسرا آدمی اگلی جھاڑیوں کی طرف چلا جاتاتھا۔کہنے لگے پتر یہ آج کل کے زمانے کے ”مسلم شاور“اور”ہندو شاور“بھی نہیں ہوتے تھے۔ طہارت کے لئے بس”گھیسی“ سے کام چل جاتا تھا۔بڑا سچا دور تھا جی۔آج کل کی خرافات کہاں تھیں!