نادان دوستوں کے کارنامے

January 25, 2022

زمانے بھر میں مشہور کہاوت آپ نے ضرور سنی ہوگی، نادان دوست سے دانا دشمن اچھا ہوتا ہے۔ دانہ پانی چھیننے سے پہلے دانا دشمن آپ سے مذاکرات پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ نادان دوست آپ کے ہاتھ میں خالی بندوق دے کر، آپ کو دس محاذوں سے جنگ جیتنے پر آمادہ کرلیتا ہے۔ نادان دوست اور دانا دشمن کا پتہ آپ کو تب چلتا ہے جب آپ چاروں شانے چت ہوجاتے ہیں۔ نادان دوست لاکھ ڈھارس بندھانے کیلئے ڈھول پیٹ پیٹ کر آپ کے گرد گاتے اور ناچتے پھریں، ’’گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں‘‘، مگر چت ہوجانے کے بعد پھر کبھی آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہتے۔ اس وقت ہمارے کپتان مکمل طور پر نادان دوستوں کے نرغے میں ہیں۔ ہر طرف سے انہیں گھیر لیا ہے نادان دوستوں نے! میں نہیں جانتا کہ وہ نادان ان کے دوست ہیں بھی، یا انہوں نے دوستی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے! جب آپ کو اقتدار ملتا ہے، تب کونے کھدروں سے ایسے ایسے لوگ آپ کے گرد جمع ہوجاتے ہیں جن کو آپ نہیں جانتے۔ مگر وہ لوگ آپ کو باور کرواتے ہیں کہ وہ آپ کے دیرینہ دوست ہیں۔ وہ آپ کو تب سے جانتے ہیں جب آپ نیکر پہنا کرتے تھے۔ یعنی وہ آپ کو بچپن سے جانتے ہیں۔ بلکہ وہ آپ کے ساتھ کھیل کود کر کے بڑے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ آپ کو حیران ہونے یا ماضی کو ٹٹولنے کا موقع نہیں دیتے۔ نادان دوست کامیابی سے آپ کو گھیر لیتے ہیں۔ آپ کو کبڈی کھیلنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ پہلوانی کے دائو پیچ سکھاتے ہیں۔ آپ کو کشتی لڑنے کے لئے اکھاڑے میں اترنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ آپ سے ایسے ایسے کام کروانا چاہتے ہیں، جو کام زندگی میں آپ نے کبھی نہیں کئے ہوتے ہیں۔ قدرت کے قوانین اٹل ہوتے ہیں۔ تمام تر عوامل کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ دونوں پہلو ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے نتھی ہوتے ہیں۔ جیسے، اندھیرا اور اجالا، رات اور دن، طلوعِ آفتاب، غروبِ آفتاب۔ عین اسی طرح عروج کے ساتھ زوال لاحق ہوتا ہے۔ کوئی بھی حکمراں قیامت تک حکومت نہیں کرتا۔ جو اقتدار میں آتا ہے، ایک روز اسے اقتدار سے محروم ہوکر جانا پڑتا ہے۔ جب بھی کپتان کو پویلین جانا پڑا، تب ان کی روانگی کے اسباب میں چار نادان دوستوں کے نام سرفہرست ہونگے۔ انکے نام گنوانا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ آپ خود سیانے ہیں۔ تقریباً روزانہ، صبح سے رات گئے تک وہ ٹیلیوژن کے مختلف چینلز پر نمودار ہوتے ہیں اور کپتان کی بے مثال کامیابیوں کے گن گاتے رہتے ہیں۔ تاثر یہ دیتے ہیں کہ کپتان سے کبھی کوئی بھول چُوک نہیں ہوسکتی، حالانکہ وہ چاروں صاحبان خود کپتان کی بھول چوک کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں۔

دنیا میں کون ایسا شخص ہوگا جو کپتان کی کرکٹ میں خداداد صلاحیتوں کا معتقد نہ ہوگا؟ آج سے تیس چالیس سال پہلے کپتان کا شمار اپنے دور کے تین بڑے آل رائونڈرز میں ہوتا تھا، کپل دیو، ائین بوتھم اور عمران خان۔ اس حقیقت سے ہر وہ شخص واقف ہے جو کرکٹ کا شیدائی ہے۔ اس بات پر بھی ماہرین کا اتفاق ہے کہ عمران خان، کپل دیو اور ائین بوتھم سے اچھے آل رائونڈر تھے۔ اسی دور میں نیوزی لینڈ کے سر رچرڈ ہیڈلی کا شمار بھی دنیا کے اچھے آل رائونڈرز میں ہوتا تھا۔ مگر عام طور پر مانا جاتا تھا اور مانا جاتا ہے کہ ہمارے کپتان عمران خان اپنے دور کے سب سے اچھے آل رائونڈ تھے۔ اس بات کو تیس چالیس برس گزر چکے ہیں۔ پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے یوٹیوب پر اچانک کپتان کے کرکٹ میں کارناموں کے ویڈیو لگاتار چلنے لگے ہیں۔ کپتان کے مسترد دوستوں کا ماتھا ٹھنکا۔ اگر کپتان کے ویڈیوز کے ساتھ ساتھ کپل دیو، آئین بوتھم اور سر رچرڈ ہیڈلی کے وڈیوز بھی دکھائے جارہے ہوتے تو پھر شاید ان کے نادان دوستوں کو کوئی شخص معنی خیز نظروں سے نہ دیکھتا۔ یوٹیوب والے تو کرکٹ کی تاریخ میں عظیم ترین آل رائونڈر سرگار فیلڈ سو برز کے ویڈیوز تک اس قدر پابندی سے نہیں دکھاتے جس پابندی سے کپتان عمران خان کے ویڈیوز دکھاتے ہیں۔ میرے پاس ٹھوس ثبوت تو نہیں ہے جو میں اپنے شک کو سچ ثابت کرنے کے لئے پیش کرسکوں۔ مگر مجھے اور میرے جیسے بے شمار بونگوں کو یقین ہے کہ یوٹیوب پر کپتان کے ویڈیوز کی بھرمار کے پیچھے کپتان کے نادان دوستوں کا ہاتھ ہے۔ وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کپتان کرکٹ کی دنیا میں Charismatic، پرکشش، اپنی طرف کھینچنے والے کھلاڑی تھے۔ وہ تب سے طلسماتی کرکٹر ہیں جب ان کے نادان دوست ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔

اسی نوعیت کی چُوک بیس پچیس برس پہلے اپنے دور کے بے انتہا طاقتور شخص سے ہوگئی تھی۔ ان کا نام لیتے ہوئے مجھے اب بھی ڈر لگتا ہے۔ وہ بھی کپتان کی بے انتہا شہرت سے متاثر تھے۔ وہ سمجھتے تھے، بلکہ ان کو یقین تھا کہ سیاست دانوں کی مکمل ناکامی کے بعد ایک عمران خان ہی ہیں جو ملک کو سیاسی بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ کپتان کو قائل کرکے وہ ان کو سیاسی بھنور میں دھکیل کر دور ہوگئے۔ وہ ایک مسلمہ حقیقت کو نظراندازکرتے رہے کہ آپ کی ایک میدان میں فتوحات کی شہرت دوسرے میدان میں کام نہیں آسکتیں۔ طاقتور شخص نے عمران خان کی زندگی کے قیمتی بیس برس سیاسی دھول اور کیچڑ میں دھکے کھاتے ہوئے ضائع کروا دئیے تھے۔ مجھے بہت دکھ ہوا تھا جب کسی الیکشن میں عمران خان ایک سیٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ اس قدر نامور شخص بے نام اور بدنام سیاست دانوں کے درمیان کسی کونے کھدرے میں اداس بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ بیس بائیس برس بعد نہ جانے کیسے وہ اقتدار میں آئے۔ مگر آج بھی وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ آل رائونڈر دکھائی دیتے ہیں۔ مگر سیاست کے میدان میں اجنبی ہیں۔