فتنہ گروں کے نام

January 28, 2022

ہم جس پاکستان میں آزادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اُس کے حصول کی ضرورت کا پہلا منظم اظہار دسمبر 1906میں ہوا تھا۔ اسلامیانِ ہند کے سیاسی مستقبل پر غورو فکر کے لیے نواب آف ڈھاکہ جناب سلیم اللہ خان نے پورے ملک سے 2ہزار کے لگ بھگ مندوبین مدعو کیے۔ اُس تاریخی اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے نواب وقار الملک نے حالات کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے یہ فکرانگیز نکتہ اُٹھایا کہ ہمیں اُس وقت کے لیے آج منصوبہ بندی کرنی چاہیے جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں گے اور مسلمان ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اُن کے اِس بصیرت افروز خطبے پر تفصیل سے خیال آرائی ہوئی اور سیاسی جدوجہد کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ خطۂ بنگال سیاسی شعور میں شمال مغربی ہندوستان سے اِس لیے بہت آگے تھا کہ ایک صدی پہلے انگریزوں کی غلامی میں آ جانے سے وہاں مزاحمتی رجحانات بہت پہلے سے پرورش پا رہے تھے۔ نواب سراج الدولہ کو جنگِ پلاسی میں شکست اُن کے سپہ سالار میرجعفر کے انگریزوں سے مل جانے کی وجہ سے ہوئی تھی جو 1757میں لڑی گئی تھی۔ بدقسمتی سے اُسی خاندان کے ایک چشم و چراغ اسکندر مرزا پاکستان کے ابتدائی دس برسوں کے دوران اِقتدار کے اہم ستونوں میں شامل تھے۔

آل انڈیا مسلم لیگ مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی 1928سے حضرت قائدِاعظم کی صدارت سے فیض یاب ہونے لگی جو کانگریسی لیڈروں کی مسلم دشمنی اور اِنتہائی غیرجمہوری طرزِعمل سے دل برداشتہ ہو کر 1928میں اِنگلستان چلے گئے۔ اُنہیں دسمبر 1934میں واپس لانے میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے اہم کردار ادا کیا جو اُن کے قابلِ اعتماد سیاسی ہم سفر تھے۔ حکیم الاُمت علامہ اقبال پوری طرح واضح کر چکے تھے کہ محمد علی جناح ہی واحد رہنما ہیں جو مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے انتقال سے پہلے قائدِاعظم کو یہ مشورہ دے گئے تھے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک عظیم الشان اجتماع شمال مغربی ہند کے دل یعنی لاہور میں منعقد کیا جائے جس میں جداگانہ وطن کا مطالبہ کیا جائے۔ اِس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اُنہوں نے 22مارچ 1940کو لاہور میں مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کا اہتمام کیا اور اُس میں تقریباً ایک لاکھ مندوبین شریک ہوئے۔ بنگال کے وزیرِاعظم مولوی اے کے فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی جو قائدِاعظم کی صدارت میں اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی۔ اُس کا اردو ترجمہ کمال مہارت سے مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ تب تک دوسری جنگِ عظیم شروع ہو چکی تھی اور برطانیہ کو اَپنا وجود قائم رکھنے کے لیے امریکہ سے امداد طلب کرنا پڑی تھی جو سپرپاور بن چکا تھا۔ امریکی صدر نے اِس شرط پر اِتحادی طاقتوں کا ساتھ دیا کہ وہ جنگ کے اختتام پر نوآبادیات کو آزادی سے سرفراز کریں گی۔ اِس طرح ہندوستان کی آزادی کا مرحلہ قریب آ چکا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب انڈین کانگریس جس کی جمعیت علمائےہند بھی ہمنوا تھی، اُس نے متحدہ قومیت کا بڑی شدومد سے پرچار شروع کر رکھا تھا جبکہ مسلم لیگ مسلم قومیت کی پُرجوش حامی تھی۔ اِس نظریاتی کشمکش کے دوران سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریریں کانگریسی نقطۂ نظر کے خلاف ایک مضبوط ڈھال بنی ہوئی تھیں اور اُن سے متاثر ہو کر مسلمان جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہو رہے تھے۔ اگست 1941میں جماعتِ اسلامی قائم ہوئی، تو اُس نے اپنا پورا وزن مسلم قومیت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ رفتارِ زمانہ سے پاکستان کے لیے فیصلہ کُن انتخابات کا مرحلہ قریب آ پہنچا تھا۔ اُن میں عظیم الشان کامیابی کے لیے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کے ووٹ درکار تھے، چنانچہ مسلم لیگ نے نعرہ بلند کیا کہ ’مسلم ہے، تو مسلم لیگ میں آ‘۔ اُس کے جواب میں اُن کے اندر جوش و خروش پیدا ہوتا گیا۔ یہ عوامی طاقت کے بھرپور مظاہرے کا موزوں ترین وقت تھا۔ اُن دنوں جماعتِ اسلامی کے پہلے قیم جناب قمرالدین خان کی قائدِاعظم سے ملاقات ہوئی جس کا مختصر سا ذکر قیم جماعتِ اسلامی میاں طفیل محمد نے اپنی یادداشتوں ’مشاہدات‘ میں کیا ہے جو عزیزی سلیم منصور خالد نے برسوں کی محنت سے مرتب کی ہیں۔ ملاقات کی مختصر روداد کچھ یوں ہے:

’’قمرالدین خان صاحب نے قائدِاعظم سے اپنی گھنٹے بھر کی ملاقات میں جماعتِ اسلامی کا تعارف کرایا۔ جواب میں قائدِاعظم نے سب سے پہلے فرمایا آپ مولانا مودودی کو میرا سلام پہنچائیں اور آپ نے جو باتیں کہی ہیں، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے ایک ایسی جماعت اور افراد درکار ہیں، مگر وقت بہت کم ہے اور حالات بڑی تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں، اِس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اِن چیزوں میں پڑ گئے، تو گاڑی نکل جائے گی۔ پھر وہ جگہ ہی موجود نہیں ہو گی جہاں آپ اسلام کا کام کر سکیں گے۔ اب عملی صورت یہی ہے کہ جو کام میں کر رہا ہوں، وہی کرتا رہوں اور اُس رِیاست کو بنانے کی کوشش کروں جس میں یہ کام ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف مولانا مودودی ایک ایسی ٹیم تیار کریں جو اسلامی ریاست چلانے کے لیے ضروری ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے اور مولانا کے مقاصد میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں‘‘۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مجھے قمرالدین خان صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ میں جب علومِ اسلامیہ میں ایم اے کر رہا تھا، وہ اُس شعبے میں تدریس کے منصب پر فائز تھے۔ مجھے اُن کے بارے میں خاصی معلومات میسرّ تھیں۔ میں نے ایک روز اُن سے قائدِاعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں پوچھا، تو اُنہوں نے کم و بیش وہی باتیں بیان کیں جو ’مشاہدات‘ میں شائع ہوئی ہیں۔ وہ جماعتِ اسلامی چھوڑ چکے تھے اور اِس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ مسلم لیگ اور جماعتِ اسلامی کے مابین وہ رِشتہ قائم نہ ہو سکا جسے قائدِاعظم نے بڑی اہمیت دی تھی۔ میرے خیال میں دونوں ہی کے ہاتھ سے احتیاط کا دامن چھوٹتا رہا، حالانکہ وہ فطری حلیف تھے۔ حکمران طبقے سے جن فتنہ گروں نے تعلقات خراب کرنے میں کردار ادا کیا، اُن کی دلخراش کہانی سننے کے لیے اپنے اندر حوصلہ پیدا کیجیے۔ (جاری ہے)