انصاف کے تقاضے

January 29, 2022

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ انصاف کی منصفانہ فراہمی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ہونا تو درکنار ایسا سوچنا بھی خواب بن چکا ہے۔ اس سوچ کو جو چیز سب سے زیادہ داغدار بناتی ہے وہ امیر اور طاقتور طبقے کی ’’انصاف‘‘ تک آسان جب کہ غریب اور پسماندہ طبقے کی ناممکن رسائی ہے۔ یہاں کسی ایک یا دوسرے جج کے بارے میں بات نہیں ہو رہی بلکہ پورا عدالتی نظام ہی بری طرح انتشار کا شکار نظر آتا ہے جو ریاست کی عملداری قائم کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ماضی قریب میں عدالتی دائرہ کار میں پیش آنے والے بعض واقعات اُن حالات کی عکاسی کرتے ہیں جنہوں نے اوائل میں ہی نظام عدل کو اپنے تابع کر لیا۔ وقتاً فوقتاً آنے والے عدالتی احکامات نے ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا اور ریاست کے ایک کلیدی ستون کے طورپر اس کے وقار کو نقصان پہنچایا جس پر ریاستی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے۔

اس طرزعمل کی جو مثالیں سامنے آئیں وہ عدلیہ کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب کرتی رہیں جس کی وجہ سے عدلیہ کو انصاف کا نگہبان ہونے کے ناطے بری طرح ٹھیس پہنچی۔ ’نظریہ ضرورت‘‘ کی وجہ سے آمروں کے ملک پر غیرقانونی قبضے کو جائز قرار دینے کی راہ ہموار ہوئی اور سیاسی آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ان کے خلاف فیصلوں میں ڈھیل دینے کی روایت بھی پڑی۔ یہ وہ منفی عوامل ہیں جنہوں نے عدالتی ساکھ کو داغدارکیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کا فیصلہ ہو یا حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں اعترافِ جرم کرنے والے مجرموں کو آزاد کرنے کا معاملہ، انہوں نے عدالتی تاریخ کو داغدار بنایا۔لیکن جو نقصان ایک ساتھی جج کو احتساب کے تابع نہ کرنے کے عمل سے عدالتی نظام کو ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جس کی مستقبل میں تقلید بھی کی جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ انصاف کرنے والوں کو انصاف کے تابع نہ ہونے کے عمل کو قانونی شکل بھی دے دی جائے۔ عدالتی نظام میں ایک منفی عنصر حکمِ امتناعی بھی ہے جو انصاف کی راہ میں بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ریگولیٹرز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت مختلف عدالتوں میں 800 کے لگ بھگ مقدمات میں مخصوص مافیاز نے حکمِ امتناعی لے رکھے ہیں جن کی وجہ سے 250 ارب روپے عدالتی فیصلوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق 2500 ارب سے متعلق مقدمات حکم امتناعی کے باعث زیرالتوا چلے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کسٹمز سے متعلق بھی 19 ہزار کے قریب مقدمات زیرالتوا ہیں۔ نتیجتاً ملک بڑے بڑے ڈاکوئوں کے ہاتھ گروی بن چکا ہے۔ ان حالات میں ایسے امتناعی احکامات کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے جن کی وجہ سے نہ صرف ریاستی اداروں کے کام میں رکاوٹ کھڑی کی جا رہی ہو بلکہ انصاف کی تیزترین اور موثر فراہمی بھی مسدود ہو رہی ہو۔ مقدمات کو نمٹانے کے بارے میں بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ مقدمات جس سست رفتاری کے ساتھ سنے جا رہے ہیں اْس کے نتیجے میں انہیں انجام تک پہنچانے اور قانون شکن افراد کو احتساب کے شکنجے میں لانے کیلئے کئی برس لگ سکتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ ان خاندانوں کی سیاسی بقا ان مقدمات کے نتائج کے ساتھ مشروط ہے اور انہوں نے قانون کے شکنجے سے بچنے کیلئے اپنے تمام تر وسائل اور اثرورسوخ کو دائو پر لگا دیا ہے لیکن اس کا عدالتوں پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے بلکہ انہیں صرف ایسے معاملات کے فوری اور منصفانہ انداز میں نمٹانے کی فکر ہونی چاہئے۔ درج بالا حقائق بیان کرنے کا مقصد ہرگز کسی جج پر تنقید کرنا مقصود ہے اور نہ ہی اداروں کی ساکھ پر اثرانداز ہونا ہے۔ ماضی میں کسی نہ کسی سطح پر تمام اداروں سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن قوموں کی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ان غلطیوں کا ازالہ کرنا اشد ضروری ہو جاتا ہے۔ شاید وہ وقت اب آ گیا ہے۔

ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد ریاستی معاملات میں عدلیہ کے کلیدی کردار کا بھی احاطہ کرنا ہے اور اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ انصاف کی فراہمی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہونے پائے۔ عوام میں اگراس تاثر نے تقویت پکڑ لی کہ ہمارا عدالتی نظام مخصوص گروہ کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے تو یہ قانون کے سب کیلئے برابر ہونے کے تصور کو نقصان پہنچائے گا اور غریب اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی محافظ ریاست کیلئے مشکلات پیدا کرے گا۔ ریاست کو غریب اور پسماندہ طبقات کے حق اور مافیاز کے خلاف جرأتمندانہ اقدامات اٹھانے پڑتے ہیںتاہم عدلیہ کے تعاون کے بغیر ایسا ممکن نہیں جسے یقینی بنانا اشد ضروری ہے تاکہ عوام مخصوص مافیاز کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہ سکیں اور ریاست کی مکمل عملداری قائم ہو سکے۔ ادارہ جاتی اصلاحات کا آغاز وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کاوش میں عدلیہ کا ایک بنیادی کردار ہے۔ جب تک امیر اور طاقتور طبقے کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا ’انصاف‘ ایک بے معنی اور بے وقت لفظ ہی رہے گا۔ عدلیہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوا جائے، اس سے پہلے کہ ریاست خونخوار مافیاز کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)