چالان کی رقم نجی کمپنی کے اکاؤنٹ میں جمع ہونے کا انکشاف

February 14, 2022

چالان کی رقم نجی کمپنی کے اکاؤنٹ میں جمع ہونے کا انکشاف

کراچی میں نجی کمپنی کو فائدہ دینے کے لئے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی جانب سے ٹریفک قوانین کی ہر خلاف ورزی کا الگ الگ چالان کیا جاتا ہے، فی چالان 20 روپے کمیشن نجی کمپنی وصول کرتی ہے جو چالان کی سرکاری رقم اپنے اکاؤنٹ میں جمع کراتی ہے۔

اس سلسلے میں موصول دستاویز کے مطابق یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے اور تیکنیکی طور پر ٹریفک پولیس جرمانے جمع کرنے والی نجی کمپنی کیلئے سہولت کار بنی ہوئی ہے، اس صورتحال سے شہری کئی سالوں سے لٹتے آرہے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق اگر کسی شہری نے موٹر سائیکل پر نمبر پلیٹ نہیں لگائی، ہیلمٹ نہیں پہنا اور اس نے ون وے کی بھی خلاف ورزی کی ہے تو اسے ایک چالان دینے کی بجائے ٹریفک پولیس اہلکار کی جانب سے تین الگ الگ چالان دیئے جاتے ہیں جس کا مقصد واضح طور پر چالان کی رقم وصول کرنے والی نجی کمپنی کو فائدہ پہنچانا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق اگر ٹریفک قوانین کی تین خلاف ورزیاں ایک ہی چالان میں عائد کر دی جائیں تو نجی کمپنی کو شہری سے صرف 20 روپے ملیں گے، تین الگ الگ چالان کرنے کی صورت میں کمپنی کو ایک شہری سے 20 کی بجائے 60 روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔

ذرائع کے مطابق کراچی میں یومیہ 10 ہزار سے زائد چالان کیے جاتے ہیں، ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 ء میں کراچی ٹریفک پولیس کی جانب سے 32 لاکھ 50 ہزار سے زائد چالان کیے گئےجن پر نجی کمپنی نے 74 کروڑ 40 لاکھ 15 ہزار سے زائد جرمانہ وصول کیا جب کہ کمپنی نے جرمانہ وصولی میں6 کروڑ 50 لاکھ سے زائد کا کمیشن الگ حاصل کیا

اسی طرح سال 2021 ء کے دوران کراچی میں 39 لاکھ 33 ہزار 200 چالان کیے گئے جن کا نجی کمپنی نے 91 کروڑ 30 لاکھ 3 ہزار سے زائد جرمانہ وصول کیا جبکہ نجی کمپنی کی جانب سے 7 کروڑ 84 لاکھ 65 ہزار کمیشن الگ سے وصول کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق ٹریفک پولیس کو اعلیٰ حکام کی جانب سے یومیہ بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ چالان کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے تاکہ ریونیو کلیکشن زیادہ سے زیادہ ہو سکے، کراچی میں ٹریفک پولیس اہلکار مخصوص مقامات پر شکاری بنے دکھائی دیتے ہیں، ٹریفک اہلکارگھات لگا کر مخصوص گاڑیوں کو ٹارگٹ بنا کر چالان کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک اور غیر قانونی عمل یہ بھی ہے کہ نجی کمپنی شہریوں سے چالان کی مد میں حاصل کی گئی کروڑوں روپے کی رقم اپنے کمپنی اکاؤنٹ میں جمع کراتی ہے جس میں سے اپنا کمیشن اور دیگر اخراجات منہا کر کے کمپنی وہ رقم چند روز بعد پے آرڈر کی شکل میں سرکاری خزانے میں جمع کراتی ہے۔

ماضی میں ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کی سرکاری رقم کوئی نجی کمپنی اپنے اکاؤنٹ میں جمع رکھے، جبکہ اصول کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام رقم سرکاری خزانے میں یومیہ بنیادوں پر جمع ہو اور کمیشن وغیرہ کا بل کمپنی کی جانب سے داخل کرنے کے بعد اسے کمیشن کی رقم سرکار دے۔

اس سلسلہ میں ماضی میں جب بھی پولیس حکام سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ سال 2015 ء میں اے ٹو زیڈ کمپنی سے 10 سالہ معاہدہ کیا گیا ہے جسے توڑنا نامناسب قرار دیا جاتا رہا، اعلیٰ پولیس حکام اے ٹو زیڈ کمپنی سے 10 سالہ معاہدے کو جواز بنا کر کارروائی نہیں کرتے جبکہ قانونی ماہرین کے مطابق سرکاری افسر اگر عوام دشمن معاہدہ کرتا ہے تو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

اس تمام صورتحال کے پیش نظر ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے واضح کیا ہے کہ کراچی میں غیرضروری چالان روکنے کے لیے صرف سیکشن افسر کو چالان کرنے کا اختیار ایک ہفتے کیلئے دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹریفک پولیس ریونیوکلیکشن کا ادارہ بن کر رہ گیا ہے، اس حوالے سے سی ای او اے ٹو ذی محمد شاکرکا کہنا ہے کہ معاہدہ اکتوبر 2015 میں دس سال کے لیے ہوا، سسٹم آٹو میٹڈ ہے، ہم ٹریفک ٹکٹنگ مینجمنٹ کرتے ہیں، جرمانے کی رقم کی تفصیل شیئر نہیں کرسکتے۔

سی ای او اے ٹو زی محمد شاکر کا کہنا ہے کہ ہر چالان پر 20 روپے سروس چارجز وصول کرتے ہیں، سسٹم میں ہر خلاف ورزی پر الگ چالان کیا جاتا ہے، ہر سیکشن سے پیسے جمع کرکے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں جبکہ جمعہ سے اتوار جمع ہونے والے جرمانے کی رقم پیر کو سرکاری خزانے میں جمع کراتے ہیں، باقی دنوں کی رقم 24 گھنٹے میں سرکاری خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے۔