نبض شناسی سے کلینکل ٹیسٹ تک

September 07, 2013

ڈاکٹروں کے حوالے سے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں جناب ادریس بختیار نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے، کہ عام چھوٹے موٹے ڈاکٹروں کا تو ذکر ہی کیا، نامی گرامی اسپیشلسٹ ڈاکٹر صاحبان بھاری فیسیں لیکر بڑے ناموں والی لیبارٹریوں سے ڈھیروں ٹیسٹ کروانے کے بعد بھی صحیح تشخیص کیوں نہیں کرپاتے؟ مایوسی میں اگر ڈاکٹر بدل لیا جائے تو وہ نئے سرے سے تمام ممکنہ ٹیسٹ کسی نئی لیبارٹری سے کروانے کی تاکید کرتا ہے۔ مگر ڈھاک کے وہی تین پات، نتیجہ پھر بھی صفر نکلتا ہے، اور اکثر کیسز میں تشخیص نہیں ہو پاتی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ پانی کہاں مرتا ہے؟ جدید لیبارٹری ٹیسٹوں کے بعد بھی بیماری تک پہنچنے میں کیا امر مانع ہوتا ہے؟ کیا ڈاکٹر صاحبان نااہل ہیں؟ کیا وہ غفلت کا شکار ہیں اور جان بوجھ کر صرف نظر کر جاتے ہیں۔ یا پھر باہمی مفادات کا معاملہ ہے کہ لیبارٹریوں والے بھی خوش رہیں اور اطبا کے وارے نیارے بھی ہوتے رہیں۔ رہے بیچارے مریض تو وہ جائیں بھاڑ میں۔ مرنا تو ان کا نصیب ٹھہرا، اس بیماری سے نہیں تو کسی اور سے مرجائیں گے۔ یقیناً یہ سب ڈاکٹر صاحبان پر صاق نہیں آتا۔ انتہائی خدا ترس اور ماہر مسیحاؤں کی بھی کمی نہیں، جو ٹیسٹ کے بغیر ہی معاملہ کی تہہ کو پہنچ جاتے ہیں اور ٹیسٹ محض تسلی کیلئے کروائے جاتے ہیں۔ اور وہ بھی ان مریضوں کے جو ایفورڈ کرسکتے ہوں۔ غریب غرباء کو اس مشقت میں ڈالے بغیر ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ اور ان کی نیک نیتی کی اوپر والا لاج بھی رکھ لیتا ہے۔
آج میڈیکل سائنس انتہائی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ لا علاج سمجھی جانے والی بے شمار بیماریوں کا علاج دریافت ہوچکا،تشخیص کے شعبہ میں نت نئی ہونے والی پیشرفت بھی حیران کن ہے۔ مگر یہ ہمیشہ سے نہیں تھا۔ بمشکل ایک صدی ادھر کی بات ہے کہ تشخیص و علاج کا شعبہ ہمارے دیسی اطباء نے نہایت کامیابی کے ساتھ سنبھالا ہوا تھا۔ ایسے ایسے نام ہو گزرے ہیں کہ ان کے کارناموں اور فنی مہارت کی تفصیلات آج کے جدید انسان کو بھی مبہوت کردیتی ہے۔ ایسے بزرگوں کی فہرست طویل ہے۔ میں صرف چند ایک کا ذکر کروں گا۔ اول حکیم اجمل خان جو 1868ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور 1927ء میں وفات پائی۔ آپ کے بعض بزرگوں نے بھی طب اور جراحت میں بہت نام کمایا اور بعض تو مغل فرمانرواؤں کے شاہی طبیب رہے۔ آپ کے دادا حکیم شریف خان نے دہلی میں ایک بڑے دواخانہ اور طبیہ کالج کی بنیاد رکھی۔ شریف منزل کے نام سے موسوم حکیم اجمل خاں کے دواخانہ کی شہرت چہاروانگ عالم میں تھی، جہاں مریض چارپائیوں اور بہنگیوں پر آتے اور پیروں پر چل کر واپس جاتے۔ جہاں ہرکس و ناکس کیلئے دوا مفت تھی۔ لیکن یہ سہولت بنفس نفیس قطب پر آنے والوں کیلئے تھی، گھر پر مریض دکھانے والوں کو نہ صرف دوائی پہلے سے خریدنا پڑتی، ایک ہزار روپیہ فیس بھی ادا کرنا پڑتی تھی۔ اس قدر بھاری فیس کی مصلحت یہ تھی کہ کوئی انہیں مطب سے اٹھانے کی ہمت ہی نہ کرے، تاکہ نادار مریضوں کا حرج نہ ہو، مگر پھر بھی راجے، مہاراجے اور اہل ثروت کب باز آتے تھے۔
رہا تشخیص کا معاملہ، تو اس میں حکیم صاحب کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ مریض کا چہرہ دیکھ کر مرض کی تہہ تک پہنچ جاتے۔ نبض شناسی میں تو موصوف کا جواب نہیں تھا، یوں کہئے کہ معجزات سرزد ہوتے تھے۔ طب کے شعبہ میں مغرب کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی غرض سے 1911ء میں انگلستان تشریف لے گئے۔ مدراس میڈیکل کالج کے گریجویٹ ڈاکٹر مختار احمد انصاری اس زمانے میں لندن کے چیرنگ کراس ہسپتال میں ہاؤس سرجن کے طور پر متعین تھے۔ اور معروف برطانوی سرجن کرنل بائیڈن کے اسٹاف میں شامل تھے۔ ڈاکٹر انصاری نے اپنے باس سے حکیم اجمل خان کی لندن آمد کا ذکر اس تخصیص کے ساتھ کیا کہ موصوف نبض دیکھ کر مرض کی تشخیص کرلیتے ہیں۔ بائیڈن حیران ہوا اور ملاقات کا مشتاق بھی۔ چنانچہ اگلے ہی روز ہسپتال میں ملاقات طے پاگئی۔ حکیم صاحب ڈاکٹر انصاری کی معیت میں تشریف لائے۔ بائیڈن ، جو ایک آپریشن کی تیاری کررہے تھے ، نہایت تپاک سے ملے اور بولے، حکیم صاحب ، آپ کی نبض شناسی کی بڑی شہرت سنی ہے۔ اس مریض کا آپریشن ہونے جارہا ہے۔ ذرا بتائیے تو اسے کیا تکلیف ہے؟ حکیم صاحب نے چند لمحوں کیلئے نبض تھامی ، پیٹ کو دبایا ، آنکھوں کی رنگت ملاحظہ کی اور بولے مریض کے خم معدہ (معدہ کا منہ) پر پرانا ورم ہے، جو سخت ہو کر گلٹی کی شکل اختیار کرگیا ہے جس سے خم معدہ ایک طرف کو جھک گیا ہے۔ کرنل بائیڈن یہ سن کر مسکرایا اور بولا ، نہیں حکیم صاحب، ایسا کچھ نہیں ہے، اس کے پتہ پر ورم ہے اور ناکارہ ہوچکا ہے، آپریشن سے نکالنا پڑے گا۔ مگر جب نشتر چلا اور حقیقت سامنے آئی تو شاہی سرجن بائیڈن کی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ حکیم صاحب کی تشخیص سو فیصد درست تھی۔ معدے کے منہ پر واقعی گلٹی تھی، جسے آپریشن سے ہٹادیا گیا اور مریض بھلا چنگا ہوگیا۔ حکیم اجمل خان کی طبی خدمات کی داستان کو اس مختصر سے کالم میں سمونا ناممکن ہے۔ یہ تذکرہ پھر سہی۔ علمی خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی کے طبیہ کالج کے انتظام و انصرام کے ساتھ ساتھ جامعہ ملیہ اسلام کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور 1920ء میں اس کے پہلے چانسلر مقرر ہوئے اور تادم آخر یعنی 29/ دسمبر 1927 ء تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ ڈاکٹر انصاری کے بارے میں سن لیجئے کہ موصوف نے سرجری کے شعبے میں بہت نام کمایا۔ ایم ڈی اور ایم ایس کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایک عرصہ تک لندن کے دو معروف ہسپتالوں لاک ہاسپٹل اور چیرنگ کراس ہاسپٹل کے ساتھ اٹیچ رہے۔ اور ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر چیرنگ کراس ہاسپٹل کا ایک وارڈ آج بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کی سیاسی اور علمی خدمات بھی مسلمہ ہیں۔ آزادی کی جدوجہد میں مسلم لیگ اور کانگریس ہر دو کے ساتھ مل کر کام کیا۔ 1918ء اور 1920ء میں مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔
جہاں ڈاکٹر انصاری نے طب کی جدید تعلیم حاصل کی اور سرجری کے شعبے میں یورپ تک نام کمایا، ان کے بڑے بھائی نے دیسی طب کے میدان میں طلسماتی شہرت پائی۔ نام تو ان کا کچھ اور تھا ، مگر آنکھوں کی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے حکیم نابینا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اپنے شعبے میں یکتا ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد متقی اور پارسا تھے۔ مریض کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ محض نبض محسوس کرکے مرض پکڑ لیتے تھے۔ خواتین کی تو نبض بھی نہیں چھوتے تھے۔ بلکہ ان کی کلائی سے بندھے دھاگے کا سرا پکڑ کر نبض کی حرکت جان جاتے تھے۔ روپڑکے حکیم غیاث قارورہ شناسی میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔ مریضوں کو ہدایت تھی کہ صبح کے پہلے پیشاب کی تھوڑی سی مقدار کسی برتن میں ڈال کر لے آئیں۔ جس کی رنگت ، کثافت اور دیگر خواص دیکھ کر مرض کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔ اگر مریض کسی وجہ سے نہیں آسکتا تھا، تو قارورہ ہی کافی سمجھا جاتا، اور مریض کو دیکھے بغیر ہی تشخیص اور علاج کا اہتمام ہوجاتا تھا۔ قارورہ لانے والے کو ہی دوا اور ہدایت نامہ تھمادیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ دریائے ستلج کے بائیں کنار ے واقع یہ قصبہ آزادی سے پہلے ضلع انبار میں شامل تھا اور آج کل بذات خود ضلع کا درجہ اختیار کرچکا ہے، نام بھی تبدیل ہوچکا اور آب روپ نگر کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تو تھی ہمارے دیسی اطباء کے کمال فن کی داستان۔ اگر آج گوناگوں کلینکل ٹیسٹوں کی سہولت کے باوجود سرا ہاتھ نہیں آتا، تو اسے نرم سے نرم الفاظ میں افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ گزشتہ کالم میں انگریزی کا ایک جملہ بالکل ہی غلط چھپ گیا۔ صدر کررزئی کے خط کا جملہ یوں تھا۔