الوداع صدر زرداری

September 09, 2013

یہ وزیر اعظم نواز شریف کی سب سے خوبصورت اور انتہائی متاثر کن تقریر تھی جس نے مجھ سمیت اکثر حاضرین کو دم بخود کر دیا تھا ۔5ستمبر کو وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری کے اعزاز میں الوداعی ظہرانہ تھا اور نواز شریف میزبان تھے ۔ میزبان اور مہمان استقبالیہ ہال میں سیاسی و فوجی قیادت کے ساتھ مصافحے کر رے تھے ۔میں نے دونوں کو ایک ساتھ مسکراتے دیکھ کر کہا کہ امید ہے آپ آئندہ بھی آپس میں ملتے رہیں گے۔ ظہرانے کے دوران نواز شریف کی تاریخی تقریر میرے لئے ایک خوشگوار حیرت بن گئی ۔جب انہوں نے اپنے پرانے سیاسی حریفوں سے وابستہ تلخ یادوں کو فراموش کرکے صرف کچھ خوبصورت یادوں کے گلاب بکھیرے تو ان کی مہک مجھے بھی ماضی میں لے گئی ۔مجھے وہ دن یاد آ رہا تھا جب 1997ء میں وزیر اعظم نواز شریف اور اس وقت کی اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو نے مل کر قومی اسمبلی میں 13ویں آئینی ترمیم منظور کرائی اور صدر مملکت سے اسمبلی توڑنے کا اختیار چھین لیا۔ اس دن بے نظیر بھٹو صاحبہ بہت خوش تھیں۔اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا تو انہوں نے مجھے اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں بلایا اور کہا کہ آج میں آپ کو اور رضا ربانی کو آئس کریم کھلاؤں گی کیونکہ آپ دونوں بھی 13ویں ترمیم کو کھل کر سپورٹ کر رہے تھے ۔کچھ ہی دیر میں وہ ہم دونوں کے علاوہ ناہید خان کو لیکر میریٹ ہوٹل کی نادیہ کافی شاپ پہنچ گئیں اور ٹوٹی فروٹی آئس کریم کا آرڈر دے دیا۔ یہاں گفتگو کے دوران بی بی صاحبہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے نظریاتی اختلافات کو ذاتی انتقام نہیں بنانا چاہئے اور قومی مسائل کے حل کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے ۔انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری آپ کو پسند نہیں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ اسے جھوٹے مقدمے میں قید کر دیں اور ٹرائل بھی نہ کریں۔بے نظیر بھٹو صاحبہ کا یہ جملہ تیر بن کر میرے دل میں اتر گیا اور میں وضاحتیں کرنے لگا کہ میں زرداری صاحب سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں رکھتا۔کہنے لگیں مجھے سب پتہ ہے جب شہباز شریف اڈیالہ جیل میں تھے تو آپ ان کو وہاں ملنے جاتے تھے لیکن آصف کو ملنے آپ کتنی دفعہ جیل گئے ؟ میں نے وعدہ کیا کہ آصف صاحب کو جیل ملنے جاؤں گا ۔ 1997ء میں وزیر اعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کے درمیان شروع ہونے والا ورکنگ ریلیشن شپ زیادہ عرصہ برقرار نہ رہا ۔ ایک دن مجھے اسحاق ڈار صاحب نے بڑے افسوس کے ساتھ بتایا کہ کچھ لوگ محترمہ بے نظیر بھٹو کیخلاف انتقامی کارروائیوں کیلئے حکومت کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں اور جلد ہی بے نظیر صاحبہ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے والے ہیں۔ میں نے بے نظیر صاحبہ سے پوچھا تو انہیں بھی علم تھا ۔کہنے لگیں کہ آصف جیل میں ہے اگر میں بھی جیل چلی گی تو میرے بچے کدھر جائیں گے ؟ میں اپنے بچوں کی خاطر بیرون ملک جا رہی ہوں لیکن یاد رکھنا جو میرے ساتھ ہو رہا ہے یہی کچھ نواز شریف کے ساتھ بھی ہو گا ۔
چند سال کے اندر اندر محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیش گوئی پوری ہو گئی ۔ نواز شریف اسی لانڈھی جیل کراچی میں پہنچ گئے جہاں آصف علی زرداری بھی بند تھے ۔ اسی جیل میں زرداری صاحب نے نواز شریف کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا ۔2000ء کے وسط میں نوابزادہ نصراللہ خان نے مجھے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو مل کر پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے ۔ میں نے ایک ای میل کے ذریعہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو نوابزادہ صاحب کی رائے سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ اگر ہم نے مسلم لیگ (ن)کے ساتھ کوئی سیاسی اتحاد بنایا تو نواز شریف کی مشرف سے ڈیل ہو جائے گی اور پیپلز پارٹی کوکچھ نہیں ملے گا ۔ اس معاملے پر بے نظیر صاحبہ کی کئی ای میلز میرے پاس ابھی تک محفوظ ہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ آخر کار نوابزدہ صاحب کی کوششوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اے آر ڈی کے نام سے ایک اتحاد میں اکٹھے ہو گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پشین گوئی کے عین مطابق مشرف حکومت نے سعودی حکمرانوں کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت نواز شریف کو ان کے خاندان سمیت پاکستان سے باہر بھیج دیا ۔ ان تلخ تجربات نے بے نظیر صاحبہ کو ضرورت سے زیادہ محتاط بنا دیا ۔2005ء میں اس خاکسار نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے سعودی عرب میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے امکان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے سخت برا منایا لیکن یہ آصف علی زرداری تھے جو جیل سے رہائی کے بعد بے نظیر صاحبہ کو نواز شریف کے ساتھ ملاقات پر راضی کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
5ستمبر 2013ء کو نواز شریف نے اپنی خوبصورت تقریر میں جدہ کی ملاقات کا ذکر کیا اور یہ اعتراف بھی کیا کہ اس ملاقات کو ممکن بنانے میں زرداری صاحب کا کردار اہم تھا ۔ نواز شریف نے ان گلابوں کا بھی ذکر کیا جو 2006ء میں بختاور اور آصف نے انہیں لندن میں پیش کئے تھے اور 2007ء کی اس اداس شام کا بھی ذکر کیا جب وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد زرداری صاحب سے تعزیت کے لئے نوڈیرو پہنچے تھے ۔ نواز شریف 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کر چکے تھے لیکن زرداری صاحب نے انہیں بائیکاٹ ختم کرنے پر قائل کیا ۔ جب نواز شریف نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تو پھر زرداری صاحب کو پیشکش کی گئی کہ اگر وہ ایک سال کیلئے الیکشن ملتوی کرنے پر راضی ہو جائیں تو انہیں ایک سال کیلئے نگران وزیر اعظم بنا دیا جائے گا ۔ آصف علی زرداری نے انکار کر دیا الیکشن ہو گیا۔پیپلز پارٹی کو مرکز اور سندھ میں اکثریت مل گئی نواز شریف نے پنجاب میں حکومت بنالی ۔ جاوید ہاشمی نے این اے 55راولپنڈی کی نشست خالی کر دی تو نواز شریف نے آصف علی زرداری کو پیشکش کی کہ وہ این اے 55سے الیکشن لڑیں اور وزیر اعظم بن جائیں ۔زرداری صاحب کے عزائم کچھ اور تھے انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار کے طور پر این اے 55سے الیکشن لڑیں ۔یہ سن کر میں ہنس دیا اور کہا کہ نہ تو میرے پاس سیاست کیلئے مطلوبہ مزاج ہے نہ پیسے اس لئے آپ کا بہت بہت شکریہ لیکن یہ پتہ چل گیا ہے کہ آپ صدر بننے کے چکر میں ہیں۔
لاہور کے ایک بہت بڑے وکیل نواز شریف کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ درخواست گزار بن جائیں تو کل ہی آصف علی زرداری کو عدالت سے نااہل قرار دلوا دوں گا ۔ بعدازاں آئی ایس آئی کے ایک ریٹائرڈ افسر نے اسی پیشکش کے ساتھ نواز شریف کو ملنا چاہا لیکن نواز شریف نے انکار کر دیا ۔ نواز شریف نے آصف علی زرداری کے خلاف سازشوں کا حصہ بننے سے انکار کر دیا لیکن معزول ججوں کی بحالی پر دونوں میں اختلاف اتنا بڑھا کہ زرداری صاحب نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا ۔ یہ ایک دھبہ ہے جو کبھی نہ مٹ سکے گا ۔ایک غلطی نواز شریف نے بھی کی جب چوہدری نثار علی خان کے روکنے کے باوجود وہ میموگیٹ کیس میں درخواست گزار بن کر سپریم کورٹ چلے گئے اور پھر مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی والوں نے ٹی وی چینلز پر ایک دوسرے کو خوب برا بھلا کہا ۔ اچھی بات یہ تھی کہ نواز شریف کی الوداعی تقریر میں ان تلخ یادوں کا ذکر نہ تھا مجھے یہ الوداعی تقریر ایک نئے دور کا استقبال محسوس ہوئی کیونکہ جوابی تقریر میں آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم بھی پاکستان کی خاطر پانچ سال تک آپ کے ساتھ سیاست نہیں کر یں گے ۔ اگر نواز شریف، آصف علی زرداری اور دیگر قائدین مل کر پاکستان کو خودکش حملوں، ڈرون حملوں، لوڈشیڈنگ اور بلوچستان میں بدامنی سے نجات دلادیں تو واقعی پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے ۔ آصف علی زرداری کا پانچ سالہ دور صدارت ختم ہوا لیکن ان کی پارٹی سندھ میں حکمران ہے ۔ نواز شریف اور زرداری مل کر سندھ کے شہر کراچی میں امن قائم کر دیں تو امن کے گلابوں کی مہک سے پورا پاکستان جھوم اٹھے گا ۔ نواز شریف نے زرداری صاحب کے الوداعی ظہرانے پر سیاسی و فوجی قیادت کوا کٹھا کرکے جس نئے دور کا آغاز کیا ہے اس دور میں سیاسی و فوجی قیادت کا اتحاد ہماری مستقل ضرورت ہے امید ہے اس اتحاد کا اگلے پانچ سال میں بار بار عملی مظاہرہ ہو گا ۔