خربوزوں کی ریڑھی

September 11, 2013

مشتاق احمد یوسفی نے ”آب گم“ میں ایک ایسے شخص کا خاکہ بیان کیا ہے جنہیں سب ”قبلہ“ کہتے تھے اور جن کی بارعب اور ہیبت ناک شخصیت کے آگے اچھے اچھوں کا دم نکلتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے ہونے والے داماد ”بشارت“ نے ڈرتے ڈرتے ان سے بیٹی کا رشتہ مانگا تو ”بقلم خود رقعہ لکھا اور رجسٹری سے بھجوا دیا ، حالانکہ مکتوب الیہ کے مکان کی دیوار ملی ہوئی تھی…بشارت نے جی کڑا کر کے یہ تو لکھ دیا کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں ، لیکن اس وضاحت کی ہمت نہ پڑی کہ کس سے۔مضمون بے ربط و ژولیدہ سہی لیکن قبلہ اپنے حسن سیرت اور دشمنوں کی حرامزدگیوں کے بیان سے بہت خوش ہوئے۔ اس سے پہلے ان کو کسی نے وجیہہ بھی نہیں کہا تھا ۔دو دفعہ پڑھ کر اپنے منشی کو پکڑا دیا کہ تم ہی پڑھ کر بتاؤ صاحبزادے کس سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ اوصاف تو میرے بیان کئے ہیں۔“
یہ مختصر اقتباس مجھے ”اے پی سی“ کا اعلامیہ پڑھ کر یاد آیا۔جس دشمن کے ہاتھ ہماری عورتوں،بچوں اور مردوں کے خون سے رنگے ہیں ، جو ہماری پولیس کے جوانوں کے جسمو ں کے چیتھڑے اڑاتا ہے ، جو ہماری فوج کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھتے ہوئے ہمارے فوجیوں کی گردنیں کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلتا ہے ،ہمیں اس دشمن کا نام لینے کی بھی ہمت نہیں ہوئی ۔ اس اعلامیے کے چوتھے پیرا گراف کی پانچویں سطر میں ہم فقط اتنا لکھ پائے کہ ”قبائلی علاقوں میں امن کی بحالی کے لئے اپنے لوگوں سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے…“۔سبحان اللہ ۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔اب یہ بھی ”قبلہ“ کا منشی ہی بتائے گا کہ ہمارا دشمن کون ہے اور کس سے مذاکرات ہوں گے۔ اوصاف تو ”اپنے لوگوں“ کے بیان کئے ہیں۔ یقینا اس بات کا جواب یہ دیا جائے گا کہ سب کو پتہ ہے کن سے مذاکرات کی بات ہو رہی ہے اور کیوں ہو رہی ہے اور ان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کا ”خیر مقدم“ بھی کر دیا گیا ہے لہٰذا اب یہ فلسفہ جھاڑنے کی ضرورت نہیں کہ اعلامیے میں کسی کا نام کیوں نہیں لیا گیا، آپ بس چپ چاپ مذاکرات کی کامیابی کاانتظار کریں بالکل ایسے جیسے کسی کیفے میں بیٹھ کر محبوب کا انتظار کیا جاتا ہے !
ہمارے ہاں دفاعی امور اور دہشت گردی سے متعلق تجزیہ کار ماشا ء اللہ ہر گلی کی نکڑ پر پائے جاتے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد پراپرٹی ڈیلنگ کی دنیا میں نام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی سکرینوں پر جلوہ افروز ہو کر ہمیں سمجھاتے ہیں کہ کیسے امریکہ کو نکیل ڈالنے سے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے جبکہ باقی وہ سویلین ہیں جو اپنی تحریروں اور گفتگو میں جا بجا القاعدہ ، شیخ خالد محمد، یمن ، ابو زبیدہ ، لیبیا ، شام ، اوبامہ ، کیمیائی ہتھیار ، افغانستان،جنگی اسلحہ اور امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم جیسے پر شکوہ الفاظ استعمال کر کے ہم پر رعب ڈال کر یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ ان کا ویژن بھی نوم چومسکی سے کم نہیں، بس وہ ذرا ”بمار شمار“ رہے ہیں ۔ان تمام ماہرین کی طرح میری بھی دلی خواہش ہے کہ مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں، فریقین میز پر بیٹھیں ، پیزا کھائیں ،کوک پئیں اور پھر ہنستے مسکراتے ایک دوسرے کو گلے لگا کر فوٹو کھنچواتے ہوئے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کریں کہ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں ، ہم نے ہتھیار پھینک دیئے ہیں ، اب ہم اچھے بچوں کی طرح رہیں گے، لوگوں کے گلے نہیں کاٹیں گے ، جیلیں نہیں توڑیں گے ، بچیوں پر گولیاں نہیں چلائیں گے ، سکولوں کو بموں سے تباہ نہیں کریں گے، مسجدوں،بازاروں درباروں اور نماز جنازہ کے موقع پر خود کش حملے نہیں کریں گے ،بلکہ حکومت ہمیں وزیرستان میں پرائمری سکول ٹیچر کی نوکری دے گی ، اور جو بھائی نوکری نہ کرنا چاہیں انہیں حکومت دس ہزار روپے قرض حسنہ دے گی (بلا سود) جس کی مدد سے وہ افغانستان کی سرحد کے قریب خربوزوں کی ریڑھی لگا کر رزق حلال کمائیں گے ، اللہ اللہ خیر سلا، دہشت گردی ختم ، ملک امن و امان کا گہوارہ ،امریکہ کا منہ کالا۔
کاش کہ ایسا ہو جائے مگر افسوس کہ ایسا ہوگا نہیں۔طالبان کا بیانیہ (narrative) نہایت سادہ اور ہمارے عوام کی اکثریت کے ذہنوں کو متاثر کرنے والا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ 9/11کے بعد امریکہ نے افغانستان پر بلا جواز حملہ کیا، لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا، اس جنگ میں پاکستانی فوج نے چونکہ امریکہ کا ساتھ دیا لہٰذا اس فوج کے خلاف جہاد عین فرض ہے ،ساتھ ہی ڈرون حملوں اور لال مسجد جیسے واقعات میں مرنے والے بے گناہ افراد کے لواحقین ان کے ساتھ آ ملتے ہیں جو اپنا انتقام پاکستانی حکومت کی نمائندہ سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر لیتے ہیں ، اس سارے معرکے میں پاکستانی عوام چونکہ خاموش تماشائی ہیں اس لئے ان کی جان لینا بھی ثوا ب کا کام ہے اور اگر بالفرض کوئی بے گناہ مر بھی جاتا ہے تو نو پرابلم ، خود کش بمبار کی طرح وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا ، اس کے علاوہ اگر یہ تمام معاملات سیدھے بھی ہو جائیں اور امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد یہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ ختم بھی ہو جائے تو بھی ہمارا ”جہاد“ جاری رہے گا اور ہم کافرانہ جمہوریت اور غیر اسلامی آئین کی جگہ اپنی تشریح کے مطابق ”شریعت “ کا نفاذکر کے دم لیں گے ۔یہ ہے اس بیانئے کا خلاصہ۔طالبان کے حمایتی لکھاریوں اور جماعتوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ جب پاکستان امریکہ کی اس جنگ سے نکلنے کا اعلان کر دے گا اور ڈرون حملوں کے خلاف واضح سخت موقف اپنائے گا تو طالبان کا narrativeخود بخود کمزور پڑ جائے گا اور پھر ان سے مذاکرات کی میز پر گفتگوکی مدد سے جیتنا آسان ہو جائے گا، ان کا کہنا ہے کہ طالبان آخر ہمارے اپنے بچے ہیں، ان کے خلاف طاقت کے استعمال کی ضرورت ہی نہیں۔ہم نے مذاکرات کی پیشکش بھلے منت ترلے کے صورت میں ہی کی ہے مگر اس سے دو فائدے حاصل ہوں گے ۔پہلا،دہشت گردوں کو سنجیدگی دکھانے کے لئے کم از کم وقتی طور پر حملے بند کرنے ہوں گے ،اس سے عوام اور حکومت کو سکھ کا سانس ملے گا۔ دوسرا،طالبان کے مطالبات پہلی مرتبہ عوام کے سامنے آ جائیں گے اور جن لوگوں کویہ خوش فہمی ہے کہ ہمارے یہ بچے راہ راست سے ہٹ گئے تھے اور اب واپس صراط مستقیم پر آنا چاہتے ہیں، ان کو یہ پتہ چل جائے گا کہ ان بچوں کا ایجنڈا کیا ہے۔ چونکہ مجھے علم نجوم سے بھی کچھ شغف ہے اس لئے میں ابھی پیش گوئی کئے دیتا ہوں کہ ان کا مطالبہ اس قسم کاہوگا کہ ملک میں فوری طور پر ان کی مرضی کی شریعت نافذ کی جائے۔
جمہوریت کا ڈھونگ ختم کر کے خلافت کا نظام رائج کیا جائے ،عورتوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگائی جائے ،مردوں کو داڑھی رکھنے کا پابند کیا جائے(سوات میں اس کا عملی مظاہرہ ہم دیکھ چکے)،انگریزی تعلیمی ادارے اور سودی بنک بند کر دئیے جائیں ،کافر ممالک بشمول امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جائے اور اگر حکومت یہ سب کچھ نہیں کر سکتی تو فقط اسلام آباخالی کرنے کی تاریخ کا اعلان کرکے انہیں شکریے کا موقع دے ،یہ سب کام وہ خود کر لیں گے ۔
یہ پیشین گوئی اپنی جگہ مگر میری دلی خواہش ہے کہ میرا سارا تجزیہ غلط ثابت ہو اور سب کچھ بالکل ویسے ہی ہو جیسے ہر کوئی امید لگائے بیٹھا ہے ،یوں بھی تجزیہ غلط ثابت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،اگر ایسا ہوتا تو 11مئی کے نتائج کے بعد بے شمار تجزیہ نگار خربوزوں کی ریڑھی لگا لیتے ،مگر ایسا نہیں ہوا!