معیشت چلائیں ملک بچائیں

September 16, 2013

پاکستان کے موجودہ معاشی حالات اور مستقبل کے امکانات کے حوالے سے چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف کا یہ کہنا کہ معاشی اور سکیورٹی مسائل پر کوئی سیاسی دباؤ قبول نہیں کر رہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف کی طرف سے یہ رائے دینا کہ ہماری معیشت ہائی رسک پر ہے، پاکستان ٹیکس نٹ بڑھائے، ٹیکسوں میں چھوٹ اور مراعات ختم کرے اور توانائی کا بحران فوری حل کیا جائے ، یہ دونوں بیانات اگر ایک ساتھ ملا کر پڑھے جائیں تو بات سمجھ آتی ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات درست کرنے کیوں ضروری ہیں لیکن اس کے لئے ”اسلام آباد“ کو پورے ملک میں گورنس خاص کر اکنامک گورنس کا ایک ایسا ماڈل متعارف کرانا ہو گا جس سے پاکستان کسی طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور امریکہ سمیت تمام طاقتور ممالک کے تسلط سے آزاد ہو کر اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو نہ صرف بنا سکے بلکہ اس پر عملدرآمد بھی کر سکے ۔ اس سے معاملات خودبخود بہتری کی طرف جا سکتے ہیں لیکن اگر ہماری ترجیحات روز بدلتی رہیں اور ہم انرجی اور دہشت گردی یا انتہا پسندی کے ایشو کو صوبوں کے تعاون سے حل نہ کر سکے تو پھر سال دو سال کے بعد معاملات خاصے خراب ہو سکتے ہیں ۔خاص کر بھارت ،اسرائیل اور دیگر ممالک کی سرگرمیاں قابو سے باہر ہو سکتی ہیں اس لئے حالات کا تقاضا ہے کہ اعلانات اور دعوؤں کے مرحلہ سے نکل کر عملی طور پر معاشی میدان میں اصلاحات کے عمل کا آغاز کیا جائے ۔ اس کے لئے ڈومیسٹک اکانومی کو فعال بنانے کیلئے ایسے انتظامی اقدامات کئے جائیں جس سے کراچی سمیت پورے ملک میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں میں وہ تیزی آسکے جس کی عوام 100دن پرانی حکومت سے توقع کر رہے ہیں۔ یہ بات تو سب ماہرین جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت اقتصادی ایشوز کو سمجھتی بھی ہے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے لیکن اب مسئلہ رہ جاتا ہے کہ اس سے آگے کا سفر کیسے طے کیا جائے ۔ اس کے لئے رول آف لاء کو یقینی بنا کر امن و امان کی بہتری کو ترجیح دی جائے، یہاں امن ہو گا تو مقامی سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی اس کے بعد ہی غیر ملکی سرمایہ کار آئیں گے اس لئے تو ملک کو خودانحصاری کی طرف لے جانے کا یہی راستہ ہے اب حال ہی میں آئی ایم ایف سے 6.6ارب ڈالر کا جو قرضہ لیا گیا ہے اس کے بارے میں تمام اہم ترین حلقوں میں واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ یہ امریکہ کے گرین سگنل کے بعد ملا ہے ۔ان حلقوں کا خدشہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان سے اپنے مفادات اور توقعات پوری نہ ہونے کی صورت میں کئی مشکلات بھی پیدا کر سکتا ہے ۔جس سے آئی ایم ایف کے موجودہ قرضہ کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس میں تعطل پیدا ہو سکتا ہے ۔ اس سے ہماری ادائیگیوں کے توازن اور دیگر معاشی حالات پر جو اثر پڑے گا وہ کوئی اچھا نہیں ہوگا ۔ موجودہ معاشی حالات کے حوالے سے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا ۔اگر اس قرضہ سے اقتصادی اصلاحات پر صحیح طریقے سے عمل ہو جاتا ہے تو اس سے ملک میں غربت، بیروزگاری اور انتہا پسندی کے خاتمہ میں مدد مل سکتی ہے ۔
دوسری طرف اب ہمارے حالات یہ ہو گئے ہیں کہ ہمیں پرانے قرضوں کی واپسی کے لئے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں ۔ آئی ایم ایف سے پاکستان کو ماضی میں جو بھی قرضہ ملتا تھا اس کی دستاویزات پر ایگزیکٹوز بورڈ کے اجلاس کے دوران یا اس کے بعد دستخط ہوتے تھے ۔ اب کی بار تو بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پہلے تسلیم کیں اور قرضہ کی منظوری بعد میں دی گئی ۔صدر زرداری کی حکومت کے دور میں تو آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی عائد کر رکھی تھی کہ قرضہ کی دستاویز (LOI) پر صدر پاکستان اور گورنر سٹیٹ بنک کے دستخط ہونے ضروری ہیں۔ اب کی بار وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بنک کے دستخط ہیں ۔ آئی ایم ایف سے قرضہ کی جس دستاویز میں پاکستان کو ماضی کی کئی معاشی کمزوریوں اور ناکامیوں کا ذکر کیا گیا ہے اتفاق کی بات یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کے گورنر کے دستخط اس پر بھی ہیں اور نئے قرضہ کے لئے جو شرائط مانی گئی ہیں اس پر بھی انہی کے دستخط ہیں یعنی اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ سٹیٹ بنک نے بطور ادارہ ماضی کی حکومت کو معاشی ناکامیوں کا اعتراف کیا ۔کیا یہ بہتر ہوتا کہ سٹیٹ بنک موجودہ حکومت کو مشورہ دیتا کہ ڈومیسٹک اکانومی بہتر بنا کر غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے کی حکمت عملی بنائی جائے اور ٹیکسوں کی چوری روکنے اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کی جائے ۔اس سے معاشی حالات کی بہتری میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔
آئی ایم ایف کے نئے قرضہ میں لاتعداد ایسی شرائط ہیں جو ماضی میں پاکستان مانتا رہا ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری حکومتیں ان پر دستخط کرنے کے بعد سوچتی ہیں ہمارے نزدیک ان کی کئی شرائط تو ہمارے مفاد میں بھی ہوتی ہیں مگر انہیں یہاں سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ٹیکسوں کی بنیاد وسیع ہوتی ہے ، ٹیکس چوری کو عملاً روکا جاتا ہے، انرجی کے بحران کو حل کرنے کے لئے بجلی اور گیس چوری کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تو اس سے صرف 2سال کی موثر حکمت عملی سے پاکستان کے بجٹ فاضل بجٹ بن سکتے ہیں مگر اس کے لئے سیاسی قیادت کو بھرپور طریقے سے اپنی خواہشات اور ضروریات کی قربانی دینا ہو گی ۔ اس ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے یہاں کاروباری افراد کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ انہیں کسی جگہ انویسٹ کرنے کی سمجھ نہیں آتی ، یہ سب پیسہ غیر دستاویزی معیشت کے زمرے میں آتا ہے، جو ٹیکس چوری، کرپشن، کمیشن اور دیگر ذرائع سے بنایا جاتا ہے ۔ کرپشن میں فوری کمی کے لئے بڑے بڑے میگا پراجیکٹ کی بجائے میڈیم سطح کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے تو اس سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں مگر میگا پراجیکٹ میں دونوں پارٹیاں کھاتی ہیں اور دونوں کے پیٹ اس سے بھرتے ہیں اس لئے طاقتور لوگ اس نظریہ کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں یہ کوئی مسئلہ ہے جس پر ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہئے اس جذبے کے ساتھ”آئیے معیشت چلائیں اور ملک بچائیں “اس سے سارے خدشات خود بخود دور ہوتے جائیں گے۔