پی آئی اے کی نجکاری کیا ملکی مفاد میں ہے

September 18, 2013

کسی بھی ملک کی ایئرلائن اس ملک کی پہچان ہوتی ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک کی اپنی قومی ایئر لائن ہے جو اس ملک کی شناخت ہے۔ امریکہ وہ واحد ملک ہے جس نے اپنی پرائیویٹ ایئر لائنوں کو قومی ایئر لائنوں کا درجہ دے رکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں ہوتا تھا اور بڑی بڑی شخصیات پی آئی اے کے ذریعے فضائی سفر کو اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتی تھیں۔ پی آئی اے ماضی میں کئی ممالک کی فضائی کمپنیوں کی تشکیل اور عملے کی تربیت کا فریضہ بھی سرانجام دے چکی ہے جس کی زندہ مثال امارات ایئر لائن ہے جس نے 1985ء میں پی آئی اے سے 2 طیارے لیز پر حاصل کرکے اپنی ایئر لائن کی بنیاد رکھی تھی اور آج اس ایئر لائن کا شمار دنیا کی صف اول کی ایئر لائنوں میں ہوتا ہے جبکہ اسے بنانے والی ایئر لائن پی آئی اے آج زبوں حالی کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے پی آئی اے میں فاضل عملے کی بلاضرورت اور میرٹ کے برخلاف کی جانے والی بھرتیوں نے ادارے پر غیر معمولی بوجھ ڈالا جس کے باعث اس کے اخراجات میں متواتر اضافہ اور کارکردگی ناقص ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ اس ادارے کو قائم رکھنے کیلئے حکومت کو ہر سال اربوں روپے کی فنڈنگ کرنا پڑی، اس طرح وہ ادارہ جو ہر سال اربوں روپے کا منافع کماتا تھا، اربوں کا مقروض ہوکر حکومت کے رحم و کرم پر رہ گیا اور حکومتی امداد کے بغیر اس کا چلنا ناممکن ہوگیا۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں نواز شریف نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے کیلئے اس کے26 فیصد حصص فروخت کرنے اور ادارے کا انتظامی کنٹرول خریدار کے حوالے کرنے کی منظوری دی جس کے بعد ملک میں ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ کیا حکومت کا یہ فیصلہ درست ہے کہ ملک کے قومی ایئر لائن کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا جائے اور ہم اپنے Silver اثاثوں کو فروخت کریں؟ واضح ہو کہ پی آئی اے سمیت خسارے میں چلنے والے دیگر قومی اداروں کی نجکاری آئی ایم ایف سے حال ہی میں لئے گئے قرضے کی شرائط میں شامل ہیں۔ پی آئی اے کی موجودہ ابتر صورتحال اور خسارے کی درج ذیل وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم وجہ مختلف دور حکومت میں کی جانے والی اضافی بھرتیاں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریباً 18 ہزار ملازمین پی آئی اے سے منسلک ہیں جبکہ صرف 32 طیارے پرواز کے قابل ہیں، اس طرح فی طیارہ 562 ملازمین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں اسٹاف ٹو ایئر کرافٹ تناسب 250 ملازمین سے زیادہ نہیں۔ واضح ہو کہ امارات ایئر لائن کے پاس تقریباً 200 سے زیادہ طیارے ہیں لیکن اس کااسٹاف ٹو ایئر کرافٹ تناسب 200 ملازمین سے بھی کم ہے جبکہ پی آئی اے کا دوسری ایئر لائنز کے مقابلے میں اسٹاف ٹو ایئر کرافٹ تناسب تقریباً دگنا ہے تاہم دیگر ایئر لائنوں میں ملازمین کی تنخواہوں کا تناسب آمدنی کا30 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں تنخواہیں کم ہونے کے باعث پی آئی اے میں یہ تناسب 20 فیصد بنتا ہے۔
پی آئی اے کے خسارے میں چلنے کی دوسری وجہ اس کے طیاروں کی زائد العمری ہے۔ واضح ہو کہ نئے طیارے پر اس کی آمدنی کا 30سے 40 فیصد فیول (Fuel) کی مد میں خرچ ہوتا ہے جبکہ پی آئی اے پرانے طیاروں پر فیول کی مد میں آمدنی کا تقریباً 55 فیصد خرچ کررہا ہے، اس طرح طیاروں پر آمدنی کے 15 فیصد زائد خرچ ہورہے ہیں جو سالانہ تقریباً 15 ارب روپے بنتے ہیں۔ پی آئی اے کے خسارے میں جانے کی تیسری وجہ پی آئی اے کے مختلف بینکوں سے لئے گئے قرضے ہیں جن پر سود کی مد میں پی آئی اے ان بینکوں کو تقریباً 12 ارب روپے سالانہ کی ادائیگی کررہی ہے۔ مذکورہ بالا تینوں وجوہات کے باعث پی آئی اے کو تقریباً 3 ارب روپے ماہانہ یعنی36ارب روپے سالانہ خسارے کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کی موجودہ صورتحال کے باعث غیر ملکی ایئر لائنز، قومی ایئر لائن سے تقریباً 60 ارب روپے سے زائد کا بزنس چھین چکی ہیں لیکن اس کے باوجود پی آئی اے کو گزشتہ سال ریونیو کی مد میں 120ارب روپے حاصل ہوئے۔ اگر مذکورہ بالا وجوہات پر توجہ دی جائے تو پی آئی اے مختصر مدت میں منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زبیر ملک کے مطابق پی آئی اے قومی اثاثہ ہے جسے منافع بخش بنانا مشکل نہیں لیکن اس کیلئے ادارے میں نئی بھرتیوں پر پابندی، بدعنوانی، سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور بدانتظامی کا خاتمہ یقینی بنانا ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شروع کرتے وقت جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور اس کے نتائج کو بھی مدنظر رکھا جائے کیونکہ موجودہ حالات میں اسٹاک ایکسچینج میں پی آئی اے کے ایک حصص کی قیمت 8 روپے سے بھی کم ہے، اس طرح ہم نجکاری کی صورت میں ادارے کے حصص کی اچھی قیمت وصول نہیں کرسکیں گے۔ ویسے بھی پاکستان میں نجکاری کا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی مثال ہمارے سامنے ہے جسے ماضی میں اونے پونے داموں فروخت کرکے غیر ملکی سرمایہ کار کے حوالے کردیا گیا جس نے ادارے میں مزید کوئی سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ حکومت آج بھی اس ادارے کی مالی مدد کررہی ہے جبکہ ادارے سے ملازمین کی چھانٹی کی خبریں آئے دن ٹی وی چینلز اور اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ میں ملک کے Silver اثاثوں کو فروخت کرنے کا حامی نہیں اور نہ ہی اس بات کے حق میں ہوں کہ پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے اس کے 8 ہزار اضافی ملازمین کو فارغ کردیا جائے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ پی آئی اے مختلف ایئر لائنز سے ٹرائل لیز پر طیارے حاصل کرے۔ واضح ہو کہ وزیراعظم کے سابق مشیر برائے ہوا بازی شجاعت عظیم کے دور میں 6 طیارے ٹرائل لیز پر حاصل کرنے کے معاہدے تقریباً ہوچکے تھے مگر شجاعت عظیم کے استعفے کے بعد یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔
پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ اگر کسی طرح 10 نئے طیارے لیز پر حاصل کرکے پی آئی اے کی فلیٹ میں شامل کرلئے جائیں تو اس سے نہ صرف فی طیارہ ملازمین کی شرح کافی حد تک کم ہوسکے گی بلکہ نئے طیاروں کے شامل ہونے سے پی آئی اے کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ قارئین یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے ایسی صورت میں جب پی آئی اے کی بیلنس شیٹ خسارے کا شکار ہے، 10 نئے طیارے لیز پر حاصل کرنا کس طرح ممکن ہے تو اس کا ایک حل یہ نکالا جاسکتا ہے کہ اگر پی آئی اے انٹرنیشنل بینکوں سے یہ معاہدہ کرے کہ بینک یہ طیارے لیز پر حاصل کرکے پی آئی اے کو فراہم کریں اور پی آئی اے گارنٹی کے طور پر سعودی عرب اور خلیجی ممالک جیسے منافع بخش اور پرکشش روٹوں پر ان طیاروں کو استعمال کرے اور ان روٹس سے حاصل ہونے والی آمدنی بینکس سے شیئر کرے تو اس سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا قومی بینک نیشنل بینک بھی ملکی اور غیر ملکی بینکوں کے ساتھ کنسورشیم بناکر اور طیاروں کو لیز پر حاصل کرکے پی آئی اے کو فراہم کرسکتا ہے۔ اس طرح ہمارا فیملی سلور (Family Silver) نہ صرف فروخت ہونے سے بچ سکتا ہے بلکہ اسے ایک بار پھر منافع بخش ادارہ بناکر اس کا کھویا ہوا وقار حاصل کیا جاسکتا ہے۔