آرٹیکل 63(1)جی کی خلاف ورزی سنگین جرم ہے ، سپریم کورٹ

May 10, 2022

فائل فوٹو

سپریم کورٹ میں آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63(1)جی عدلیہ، فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان سے متعلق ہے، اس کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے والا بھی رکنیت کا اہل نہیں ہوتا، اگر آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہ ہو تو نااہلی تاحیات ہوگی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے۔

ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب تک نااہلی کا ڈکلیئریشن عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی، یوٹیلیٹی بلزکی عدم ادائیگی پر نااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ امیدوار الیکشن سے پہلے بل ادا کردے تو کیا تب بھی نااہل ہوگا؟، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہوجائے گی۔

جسٹس مظہر عالم خیل نے کہا کہ آپ کہتےہیں منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کریں، میری نظر میں آرٹیکل 63 (1) جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے، آرٹیکل 63 (1) جی عدلیہ، فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان سے متعلق ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے کو اتنا سخت بنایا جائے کہ کوئی انحراف نہ کرسکے، پی ٹی آئی وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت کے علاوہ بولنے کا کوئی ذریعہ نہیں، اٹھارویں ترمیم میں کینسر کا علاج کرنے کیلئے ایک سرجیکل اسٹرائیک 63 اے میں بنائی گئی، اٹھارویں ترمیم دراصل متفقہ ترمیم تھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں جرم کی مختلف سزائیں دی گئی ہیں، کیا عدالت سزا میں ایک دن کا بھی اضافہ کرسکتی ہے؟

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو آئینی ترمیم کا اختیار دیا تھا، عدالت کے اختیارات لامحدود ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مجھ سمیت سب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے، وکیل بابر اعواننے کہا کہ اب بہت ہو چکا، ہم میں اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیے کہ ان فیصلوں کا حوالہ سن سکیں، سپریم کورٹ آخری امید ہے اس کے بعد سڑکیں اور جلسے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیے، دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیے، آئین کے تابع پارلیمان، ایگزیکٹو اور عدلیہ ہونی چاہیے۔

وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل ختم کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ ہی سب کو آئین کے تابع کرسکتی ہے، عدلیہ صرف آئین کی تشریح نہیں کرتی بلکہ اپنے فیصلوں سے قانون وضع کرتی ہے، آپ کہتے ہیں لوگ سپریم کورٹ کی طرف دیکھتے ہیں، عوام انصاف ہوتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

ریفرنس کی سماعت میں مسلم لیگ ق کے وکیل اظہر صدیق نے اپنے دلائل شروع کیے، عدالت نے سوال کیا کہ کیا سیاسی جماعت جوائن کرتے وقت یہ حلف لیا جاتا ہے کہ پارٹی سربراہ کی ہر ایک بات پر عمل کیا جائے گا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ یہ تعین کس نے کرنا ہے کہ کس شخص کا کیسا کردار ہے؟ وکیل ق لیگ نے کہا کہ آئین نے پارٹی سربراہ کو اختیار دیا ہے کہ اپنے اراکین کے کردار کا تعین کر سکے۔

وکیل ق لیگ نے بتایا کہ برطانیہ میں ایک پاؤنڈ کی کرپشن پر استعفیٰ دے دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں عدالتیں جس کو صادق و امین نہ ہونے پر نا اہل قرار دے چکیں وہ فیصلے ماننے کو تیار نہیں۔