بہت ہو گیا، اب موضوع بدلا جائے

September 27, 2013

محترم انتظار حسین میرے کالم پڑھتے ہوئے لاہور سے برطانیہ آئے اور جب ملاقات ہوئی تو مجھ سے بولے کہ لگتا ہے آپ پاکستان میں رہتے ہیں۔بات گہری تھی، دل میں کھُب گئی۔ اس کے بعد دل اور دماغ اپنی اپنی دلیلیں دیتے رہے۔ اکثر کہا گیاکہ خود برطانیہ میں ہو لیکن دل پاکستان میں ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ نہ پوچھئے جو دل وہاں چھوڑ آیا ہوں اس پرکیا گزر رہی ہے۔ ہر چند کہ پاکستان میرا ہے لیکن یہ وہ پاکستان تو نہیں جسے میں نے اپنایا تھا۔ جس نے میری انگلی تھام کر اس مقام تک پہنچایا۔ جس کے کتنے ہی قرض واجب ہیں مجھ پر۔ اس میں تو اُس پاکستان کا شائبہ تک نہیں۔ کیسی بسی بسائی سرشار سرزمین تھی، کیسی وقت کی لو اس کو جھلسا گئی ہے۔جی چاہتا ہے یہاں تفصیل سے لکھوں کہ اس وطن پر کیساسانحہ گزر گیا ہے، کتنی قیامتوں نے اس کا گھر دیکھ لیا ہے، کون کون سے مصائب ہیں کہ جن کو جب کہیں ٹھکانا نہ ملا وہ اپنی بے سروسامانی سمیت یہاں آن بسے ہیں ۔اب تودل کا حال یہ ہوا ہے کہ اس غریب سے اب اور دکھ دیکھے نہیں جاتے۔ غضب یہ ہے کہ دکھ دیکھ بھی لیں اور ان پر آواز بلند بھی کریں مگر رنج یہ ہے کہ اس آواز کا کسی پر کوئی اثر نہیں۔ ایک زمانہ تھا، لوگ ایک کان سے سنتے تھے، دوسرے سے اُڑا دیتے تھے۔ اب تو انہوں نے سننا ہی بند کردیا ہے۔ ایسے میں کوئی کیا کرے۔یہی کہ آنکھیں موند لے، سر ریت میں دبادے ۔اب طوفان آئیں یاجھکڑ چلیں، اُس کی بلا سے۔تو صاحبو، وہ جو کہتے ہیں کہ موضوع بدلا جائے تو کیوں نہ یہ بھی کر کےدیکھا جائے اور اُردو زبان اور ترجمے کے مسئلے پر بات کی جائے، کچھ نئی راہیں سجھائی جائیں اور کم سے کم زبان کے معاملے میں زندگی کو آسان، سہل اور سادہ بنایا جائے کہ اس پر ہمارا تھوڑا بہت بس چلتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک بچی نے مجھ سے پوچھا کہ اتنی بڑی زبان اردو میں کیا ٹارگٹ کِلر اور ٹارگٹڈ آپریشن کا اپنا کوئی لفظ نہیں؟جواب یہ ہے کہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ دنیا میں جینے کے ڈھب بدل رہے ہیں۔ اسی مناسبت سے زبان میں نئے نئے لفظ داخل ہو رہے ہیں۔کچھ پرانے لفظ ہیں لیکن ان سے وابستہ تصور میں شدت آگئی ہے ، مثال کے طور پر ظالم، سفّاک، بے رحم، جلّاد صفت، جابر اور خوں خوار کہلائے جانے والے لوگ اتنے عام ہو گئے ہیں اور ہر گلی کوچے میں مارے مارے پھر رہے ہیں کہ ایسے لوگوں کے لئے موزوں اور مناسب الفاظ انگریزی یا دوسری زبانوں سے مستعار لینے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح چور، ڈاکو، لٹیرے اور اٹھائی گیرے جیسے لفظ ختم ہی سمجھئے کہ ان کو کوئی خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ ان کے لئے اب نئے لفظوں کی ضرورت ہے۔
کچھ روز ہوئے لندن میں بھارت کے نہرو سینٹر میں ایک ہندی کتاب کی رسم ِ اجراء تھی۔ اچانک حاضرین کو احساس ہوا کہ ہندی میں رسمِ اجرا کیلئے کوئی لفظ ان کے علم میں نہیں۔ عین اُسی وقت اسٹیج سے، جسے وہ منچ کہتے ہیں، اعلان ہو ا کہ ہندی میں رسم اجرا کو ’لوکارپن‘ کہتے ہیں۔ اس میں شدھ ہندی لہجہ ڈالنے کیلئے اس کے آگے جی چاہے تو ’ڑے‘ لگالیں۔یہ تو ہندی والوں کی اپنی دھج ہے، ہر لفظ کا ہندی متبادل بنا لیتے ہیں اور اس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو رائج کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریل گاڑی میں اپنی نشست محفوظ کرانے کو وہ ریزرویشن نہیں، ’آرک چھنڑ‘ کہتے ہیں۔ اب پڑھے لکھے یا کم پڑھے لکھے، سارے کے سارے آرک چھنڑ بولتے ہیں۔ ہماری اردو ثقافت میں ایک عجب کثافت ہے۔ نئی اصطلاح پر ہنستے ہیں اور اسے قبول نہیں کرتے۔ اب ٹارگٹ ہی کو لے لیجئے۔ نشانے کو ٹارگٹ کہتے ہیں۔ اس مناسبت سے ٹارگٹ کلر کو نشانہ وارقاتل اور ٹارگٹڈ آپریشن کو نشانہ وار کارروائی کہنے میں کیا قباحت ہے؟ بس ایک ذرا سے قومی جذبے کی ضرورت ہے، وہ کہاں سے لایا جائے؟ وہ ہوتا تو رونا کس بات کا تھا۔آگے چلئے۔ٹیلی وژن نے رواج پایا اور جب پہلے سے ریکارڈ کرنے کے بجائے ہاتھ کے ہاتھ پروگرام نشر ہونے لگے تو ہم نے انہیں ’لائیو‘ live کہا۔ ایران والے ایسے پروگراموں کو ’زندہ‘ کہتے ہیں ۔ پردے کے بالائی کونے پر لکھا ہوتا ہے: زندہ۔ میں اگر اپنے ہاں یہی تجویز پیش کروں تو لوگ ہنسی میں اڑا دیں گے۔ایک اور انگریزی لفظ اردو میں یوں آیا ہے جیسے کھانا پینا یا اوڑھنا بچھونا۔ اور وہ لفظ ہے کرپشن۔اتنی کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ لگتا ہے پورا معاشرہ کرپٹ ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ ایک بے حد مناسب اور موزوں لفظ موجود ہے جو سہل بھی ہے اور وہ ہے’خیانت‘۔ کرپشن کی جگہ خیانت یوں بھی درست ہے کہ ہمیشہ امانت میں کی جاتی ہے۔ کیوں میڈیا والے کرپشن کی جگہ خیانت کو رائج نہیں کرتے۔میرا خیال ہے کہ ابلاغ عامہ کے ہر ادارے میں کم سے کم ایک مترجم ایسا ضرور ہے جسے انگریزی الفاظ haven(پناہ گاہ) اور heaven(بہشت) کا فرق نہیں معلوم چنانچہ برسوں سے لکھا جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی بہشت بن گیا ہے۔ اگرچہ بات غلط بھی نہیں لیکن ترجمہ غلط ہے۔ایک بار کسی نے پوچھا تھا کہ اردو زبان کا مستقبل کس کے ہاتھ میں ہے؟کسی نے کہا کہ اہلِ پنجاب کے ہاتھ میں لیکن میں نے کہا کہ میڈیاکے ہاتھ میں کہ وہ جب چاہے اس کا حلیہ بگاڑ دے اور جب چاہے سنوار دے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ زبان کوئی بھی ہو، تعظیم کے آداب چاہتی ہے۔ اسی لئے اردو میں لٹریچر کو ادب کہتے ہیں۔ اسی روئے کے نتیجے میں بعض بہت عمدہ لفظ رائج ہوئے۔ مثلاًfundamentalist کے لئے بنیاد پرست، militantsکے لئے شدّت پسند یا عسکریت پسنداور subsidyکے لئے زرِتلافی۔ لوگوں کو رہائی دلانے کے لئے بڑی بڑی رقمیں دینے کا جو چلن ان دنوں عام ہے اسے زرِخلاصی کہا جا سکتا ہے۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ اس بکھیڑے میں کون پڑے۔ اب تو انگریزی کے لفظوں کی اتنی بھرمار ہو گئی ہے اور ایسے گاڑھے انگریزی لفظ استعمال ہونے لگے ہیں کہ کبھی کبھی ڈکشنری دیکھنی پڑتی ہے۔
ایک اور غضب یہ ہو رہا ہے کہ پڑوسی ملک کی ترکیبیں اردو میں بلا روک ٹوک چلی آرہی ہیں۔ مثال کے طور پر کسی معاملے پر بحث ہو رہی ہے تو کہنے لگے ہیں کہ اس معاملے کو لے کر بحث ہو رہی ہے۔یہی نہیں۔معاملے کو مُدّا بھی کہنے لگے ہیں۔ سنائی یوں دیتا ہے جیسے کسی زندہ لفظ کو مُردہ کہا جا رہا ہو۔ایک اور تکلیف دہ اور خاصا حیا سے عاری لفظ یوں بولا جانے لگا ہے ’ ابھی جُڑے رہئے‘ ۔ مطلب یہ کہ پروگرام دیکھتے رہئے۔خدا کا شکر ہے کہ ’حوالے سے، حوالے سے‘ ذرا کم ہوا ہے۔ شاید اس کی جگہ ’لے کر،لے کر‘ نے لے لی ہے۔ یہ معاملے ایک ذرا سی توجہ چاہتے ہیں۔ زبان میں شائستگی ہو تو بھلی لگتی ہے۔ ہندی والے تو شائستگی کے خیال سے پھ کو ف اور کھ کو خ کہنے لگے ہیں۔ساحر کا مشہور گانا: پھیلی ہوئی ہیں سپنوں کی بانہیں، جب کبھی ہندی میں لکھا جاتا ہے عام طور پر لکھتے ہیں:فیلی ہوئی ہیں سپنوں کی بانہیں۔پھول کو فول کہتے ہیں اور لاکھ کو لاخ۔ اب رہ گیا معاملہ املا اور ہجّے کا۔ جب تک ٹیلی وژن پر پٹّیاں نہیں چلتی تھیں، اس عیب پر پردہ پڑا رہتا تھا لیکن اب تو وہ جانِ حیا کھل گیا ہے اور بڑے بڑے جگ ہنسائی کے سامان فراہم کئے جارہے ہیں۔ اس کو آئندہ کسی موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔میں یہ نہیں کہوں گا کہ اُس وقت تک ہم سے جُڑے رہئے۔آخری بات یہ کہ چاہے وہ سندھی ہو، پنجابی، پشتو، بلوچی، کشمیری، سرائیکی، پوٹھو ہاری، گجراتی، تھری، براہوی یا اردو، یہ بات طے ہے کہ زبان کا تعلق ماں سے ہوتا ہے۔اس پر خیال آتا ہے کہ جس طرح اُس کا احترام لازم ہے، اُسی طرح اِس کا بھی۔اِس کے پاؤں تلے ہو نہ ہو، زبان تلے جنت ضرور ہو گی۔