عالمی کساد بازاری اور کمزور پاکستانی معیشت

May 16, 2022

گزشتہ دنوں جرمنی کے ڈوئچے بینک نے آئندہ برس امریکہ میں کساد بازاری کی پیش گوئی کی ہے اور کہا ہے کہ آئندہ 2سال میں امریکہ، یورپ اور چین اقتصادی بحران کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ روس یوکرین کی جنگ سے بھی دنیا کو مستقبل میں کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا کی بڑی معیشتیں امریکہ، چین، یورپ اور برطانیہ اقتصادی بحران کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہیں۔ فیڈرل ریزرو بینک امریکہ نے گزشتہ 3سالوں میں پہلی بار مہنگائی سے نمٹنے کیلئے شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ امریکہ میں مہنگائی یعنی افراط زر 8.4فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 40سالوں میں سب سے بلند شرح ہے۔ برطانیہ میں توانائی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے سے صورتحال سنگین ہوگئی ہے اور آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ 2023ء میںترقی یافتہ G-7 ممالک میں برطانیہ میں سب سے کم گروتھ اور سب سے زیادہ مہنگائی ہو گی جس کی وجہ سے برطانیہ کے بینک آف انگلینڈ اور یورپین سینٹرل بینک نے بھی شرح سود بڑھادی ہے۔ جرمنی کو روس سے گیس سپلائی میں مشکلات درپیش ہیں اور اگر روس نے گیس کی ادائیگیاں اپنی شرائط پر رکھیں تو جرمنی کو 2018ء کی طرح گیس کی زبردست قلت اور سنگین کساد بازاری کا سامنا کرنا ہوگا۔ چین میں شدید لاک ڈائون اور تیزی سے گرتی ہوئی کرنسی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چین کی معاشی مندی، عالمی کساد بازاری کی ایک وجہ ہے جس نے گلوبل سپلائی چین کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے امریکہ اور یورپ میں مہنگائی اور طلب میں کمی آئے گی جبکہ ابھرتی ہوئی منڈیاں اور ترقی پذیر معیشتیں بھی عالمی کساد بازاری کا شکار ہوں گی اور ایک خطے کے معاشی نقصانات دوسرے خطوں میں معاشی بحران کا باعث بنیں گے۔

قارئین! شرح سود میں اضافے کا مقصد معیشت کو سست کرنا ہوتا ہے تاکہ مہنگائی (افراط زر) میں کمی لائی جاسکے۔ ڈوئچے بینک 2023ء کے آخر اور 2024ء کے ابتدائی مہینوں میں عالمگیر کساد بازاری کی پیش گوئی کررہا ہے۔ پہلے کورونا وبا ایک بڑا معاشی چیلنج تھا لیکن اب روس یوکرین جنگ، تیل، گیس، خام مال اور لاجسٹک کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے نے گلوبل سپلائی چین اور پاکستان سمیت پوری دنیا کی معیشتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان کو سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے زیادہ تشویشناک جی ڈی پی کا 8.2فیصد مالی خسارہ اور 5.3فیصد کرنٹ اکائونٹ خسارہ شامل ہیں۔ ملکی قرضوں کی ادائیگیوں کے دبائو اور تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافے سے زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالر کی کم ترین سطح تک آگئے ہیں جو بمشکل دو مہینے کی درآمات کے لیے ہیں جب کہ ڈالر کی طلب میں اضافے سے روپیہ گرکر 193روپے ہوگیا ہے۔ ہمارے بیرونی قرضے جی ڈی پی کے 94فیصد تک پہنچ چکے ہیں جبکہ پاکستان کے FDLA قانون کے مطابق ہم جی ڈی پی کے ٰ60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتے۔ اس کے علاوہ زرعی پیداوار میں کمی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور ایکسپورٹ میں مطلوبہ اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ 10مہینوں جولائی سے اپریل تک 40 ارب ڈالر کا ناقابلِ برداشت تجارتی خسارہ ہوا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 65فیصد زیادہ ہے جس نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کوخطرناک حد تک کم کردیا ہے۔ ہمیں 9ارب ڈالر کی زرعی اجناس امپورٹ کرنے کے بجائے مقامی پیداوار میں خود کفالت حاصل کرنا ہوگی کیونکہ ماضی میں ہم ان زرعی اجناس کو ایکسپورٹ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہمیں 14ارب ڈالر کے فرنس آئل اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ کو بھی کم کرنا ہوگا جس کیلئے فرنس آئل جیسے مہنگے فیول سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے متبادل توانائی کے سستے ذرائع ہائیڈرو، شمسی، ہوا، مقامی کوئلہ اور نیوکلیئر انرجی سے بجلی پیدا کرنا ہوگی۔ موجودہ حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج 11فیصد افراط زر (مہنگائی) کو کنٹرول کرنا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کا جی ڈی پی 4فیصد اور آئندہ سال 4.5فیصد رہنے کا امکان ہے۔ موجودہ حالات میں 30ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر اور ایف بی آر کے ریونیو میں 37فیصد اضافہ خوش آئند ہے جس پر میں FBR کے چیئرمین اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ گزشتہ دنوں میرے دوست اظفر احسن نے عید ظہرانے پر مجھے اور کارپوریٹ سیکٹر کے سربراہان کو مدعو کیا جس میں FBR کے سابق چیئرمین شبر زیدی بھی شریک ہوئے جن کا یہ کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال پاکستان کے دیوالیہ ہونے کاشدید خطرہ ہے، 100 ارب ڈالر سے زائد بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے نئے قرضے لینے پڑرہے ہیں اور ہمیں فوری طور پر 10ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس کے نہ ملنے پر ہم خدانخواستہ دیوالیہ ہونے کی طرف جاسکتے ہیں۔ دوست ممالک سعودی عرب کے 3ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات کے 2ارب ڈالر اور چین کے 2.5ارب ڈالر کے سافٹ ڈپازٹ کے رول اوور کے علاوہ ہمیں IMF کی شرائط کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کیلئے اضافی سافٹ ڈپازٹ بھی حاصل کرنا ہوں گے جو موجودہ حالات میں ایک مشکل کام ہے۔ آنے والے وقت میں دنیا میں سنگین معاشی بحران کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ امریکہ، یورپ اور چین سے پاکستان کے گہرے تجارتی تعلقا ت ہیں ، ان ممالک میں مندی سے پاکستان کی ایکسپورٹ بھی متاثر ہوں گی۔ حکومت نے 48 گھنٹوں میں ملکی معیشت کے بارے میں بڑے فیصلے کرنےکا عندیہ دیا ہے تاہم ملک میں معاشی استحکام کیلئے IMF پروگرام بحال ہونا نہایت ضروری ہے۔ میں نے نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے اپنی حالیہ ملاقات میں تجویز پیش کی کہ وہ IMFکے جائزہ پروگرام کی کامیابی، FATFاور GSP پلس کیلئے مغرب کی سفارتی سپورٹ حاصل کریں،نہیں تو ہمیں سنگین مشکلات کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)