سنو تو سہی لوگ کیا کہہ رہے ہیں !

May 16, 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی سوچ اور حکمتِ عملی سے بہت لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں کہ عمران خان نے پاکستان کے لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کی حمایت حاصل کر لی ہے اور ایک سیاسی تحریک کی بنیاد ڈال دی ہے۔ ان کے مخالفین کےلئے اب مسئلہ یہ ہے کہ اس عوامی دبائو سے کیسے نمٹا جائے ، جو عمران خان نے پیدا کر دیا ہے۔

نئی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت بے شک یہ الزامات لگاتی رہے کہ عمران خان قومی سیاسی دھارے کی مخالفت میں سیاست کرتے ہیں ۔ انہیں ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کی حمایت حاصل رہی ہے ، ان کی حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے ، انہوں نے ملکی معیشت تباہ کر دی، انہوںنے عالمی طاقتوں خصوصا امریکی ایجنڈے پر عمل کیا اور ان کی حکومت گرانے کابیرونی سازش کا بیانیہ جھوٹا ہے ۔ انہوںنے اور ان کے ساتھیوں نے بے پناہ کرپشن کی ہے جس کو چھپانے کے لئے سیاسی دبائو بڑھا رہے ہیں اورریاستی اداروں کے خلاف عوام کو کھڑا کر رہے ہیں ، وہ ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں ، فاشسٹ ہیںاور الیکشن میں دوبارہ جیت کر آئے تو ان کے پاس ملک کو معاشی ، داخلی اور خارجی بحرانوں سے نکالنے کا کوئی پروگرام بھی نہیں ہے ۔ ان الزامات کے باوجود لوگ عمران خان کی سن رہے ہیں اور ان کے مخالفین کی باتوں کو کسی قسم کی کوئی پذیرائی نہیں مل رہی ۔ یہ ایک حیرت انگیز سیاسی رحجان ہے ، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو خود تحریک انصاف کے لوگ اور ان کے اتحادی یہ اعتراف کرتے تھے کہ ان کی حکومت میں مہنگائی زیادہ ہو گئی ہے اس لئے وہ عوام کا سامنا نہیں کر سکتے ۔ اس وقت یہ بھی کہا جاتا تھا کہ شاید تحریک انصاف کی سیاست ختم ہو جائے لیکن وقت نے دیکھا کہ ایسا نہیں ہوا ۔ حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان بہت زیادہ مقبول لیڈربن کر ابھرے ہیں ۔ انہوں نے اب تک جو جلسے کئے ہیں ، ان میں لوگوں کی انتہائی متاثرکن تعداد نے شرکت کی ،وہ روزانہ کی بنیاد پر جلسے کر رہے ہیں اور یہ بھی پاکستانی سیاست کا ایک ریکارڈ ہے ۔ کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت ایسا نہیں کر سکتی ، نہ تو ان کے ورکرز تھکن کا شکار ہو رہے ہیں اور نہ ہی عوام کے ریسپانس میں کوئی کمی آئی ہے ۔ اس پولیٹیکل کیمسٹری کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کی جو رفتار ہے ، اسے زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کا ریکارڈ بھی تحریک انصاف کے پاس ہے ۔میں گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم ہوں اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے سیاست اور عوامی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتا رہا ہوں ۔ میں نے بڑی بڑی سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا لیکن اس طرح کا ٹیمپو کسی بھی تحریک کا نہیں رہا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے ایک ایسا سیاسی ماحول بنا دیا ہے ، جس کے دیر پا اثرات ہوں گے ۔ میں اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ہر مقبول تحریک ( پاپولر موومنٹ ) کا راستہ درست نہیں ہوتا ۔ اس کے لئے پاکستان میں ’’ پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی تحریک کی مثال دی جا سکتی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تحریکوں کے اثرات تو بہرحال ہوتے ہیں ۔ ان اثرات سے بچنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ۔ میں اس لیے کہہ رہا ہوںکہ عمران خان کی سیاسی تحریک کے بہت دیرپا اور گہرے اثرات ہیں ۔ اس تحریک کا تاریخ میں رخ متعین ہونا ابھی باقی ہے ۔

اس تحریک کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس سے پاکستانی ایک قوم بن گئے ہیں ۔ اس سے نسلی، لسانی ، گروہی اور فرقہ ورانہ سیاست اور تقسیم بہت حد تک کم ہو گئی ہے ۔ عمران خان کے جلسوں اور ریلیوں میں تمام زبانیں بولنے والے اور تمام مسالک کے لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کا سیاسی بیانیہ غالب ہوتا ہے ۔ عمران خان نے پاکستانی قوم کے عناصر یکجا کر دیئے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے دوسری سیاسی قوتوں سے مفاہمت نہ کرنے اور اداروں سے بظاہر ٹکراو کا جو راستہ اختیارکیا ہوا ہے، وہ خود عمران خان اور ان کی سیاست کے لئے بھی نقصان دہ ہو اور ملک میں جمہوری اور سیاسی عمل بھی اس سے منفی طور پر متاثر ہو لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ایسا ہو کیونکہ اس وقت تو یہی نظر آرہا ہے کہ ان کو اتنی حمایت حاصل ہے کہ وہ اپنی ہر بات منوا سکیں ۔ اس قدر عوامی دبائو میں ان کے سیاسی مخالفین یا غیر سیاسی مقتدر حلقے کوئی بھی مہم جوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اس وقت ان کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عمران خان کی بات مان لیں اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لئے الیکشن کی تاریخ پر ان سے بات کریں کیونکہ نئی مخلوط حکومت شدید معاشی بحران میں پھنس گئی ہے اور وہ عمران خان کے زبردست سیاسی دبائو میں بھی ہے۔ بعض لوگوں کا یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ لوگ عمران خان کی حمایت کیوں کر رہے ہیں اور ان میں یہ سیاسی جوش اور ولولہ پیدا ہونے کے کیا اسباب ہیں؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین کے ان پر الزامات اپنی جگہ لیکن دو ایشوز پر ان کے بیانیے کو کوئی شکست نہیں دے سکا ۔ پہلا ایشو کرپشن کا خاتمہ تھا اور دوسرا ایشو ملک کی حقیقی خودمختاری ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ انہوںنے اپنے اقتدار کے لیے ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا ، جن پر ماضی میں وہ کرپشن کے الزامات لگاتے تھے ،انہوں نے اپنے دور میں کرپٹ لوگوں کے احتساب اور کرپشن کو روکنے کے لیے کوئی بڑا کام بھی نہیں کیا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیرونی سازش کے بارے میں کوئی حقیقت نہ ہو لیکن عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کے لوگ کرپشن کے خلاف ہیں اور وہ ملک کو بیرونی طاقتوں کی ڈکٹیشن سے نکالنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام کال کوٹھڑی سے لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ ’’ آج کی نسل دیانت داری ، انصاف اور آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ ‘‘ بھٹو شہید کی یہ بات آج سچ ثابت ہو رہی ہے ۔ عمران خان کی سیاسی مخالفت میں کوئی چاہے ان کے بیانیے کو نہ مانے لیکن کرپشن کا خاتمہ اور حقیقی آزادی عمران خان کا نہیں ، آج کی نسل کا نعرہ ہے ۔ سنو تو سہی لوگ کیا کہہ رہے ہیں ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان سیاسی ڈرامہ کر رہے ہیں تو ان دو نعروں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کوئی اور آگے آئے لیکن موجودہ وقت کا سچ یہ ہے کہ عمران خان ایک قومی سیاسی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں ۔