قدیم دور کے وکٹ کیپر کے مشورے

May 17, 2022

جب ایک مرتبہ یقین اٹھ جاتا ہے، تب یقین کا دوبارہ بحال ہونا مشکل لگتا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ مرتبہ یقین ڈانواں ڈول ہوجائے، تو پھر یقین کا دوبارہ مستحکم ہونا امکان سے باہر لگتا ہے۔ انیس سوسینتالیس سے آج تک اظہار کی آزادی کے دعوے سے میرا یقین متزلزل ہوتا رہا ہے۔ پچھلے 75 برس کے دوران میں نے نہ جانے کتنے وزیر اطلاعات دیکھے ہیں۔ نہ جانے کتنی مرتبہ اظہار کی آزادی کی یقین دہانی سنی ہے۔ حتیٰ کہ تین چار مارشل لائوں کے دوران بھی ہم نے اظہار کی آزادی کے فرمان سنے تھے۔ ان وعدوں اور یقین دہانیوں کے دوران نہ جانے کتنے ادیب، شاعر اور صحافی نام نہاد اظہار آزادی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اعتراف کرتا ہوں کہ میں کسی قسم کی اظہار آزادی کی یقین دہانی پر یقین نہیں رکھتا۔ کچھ لکھتے ہوئے، لیکچر کے دوران کچھ کہتے ہوئے ڈرلگتا ہے۔ دوچار تہمتیں پچھلے 75 برسوں سے گردش میں ہیں۔ لکھتے ہوئے اور بولتے ہوئے خوف آتا ہے کہ نہ جانے کس قسم کی تہمت گلے پڑجائے اور باقی ماندہ زندگی اس تہمت سے جان چھڑانے میں گزر جائے۔ مثلاً اگر آپ پر ملک سے غداری کا الزام لگ جائے تو پھر آپ لکھنا پڑھنا بھول جائیں گے۔ آپ کو صرف خاص عدالتوں میں پیشی کی تاریخیں یاد رہ جاتی ہیں۔ مت کبھی کسی وزیر اطلاعات کے جھانسے میں آئیے گا۔ آپ کے پر تو ہوتے ہیں، مگر آپ کو پرواز کی اجازت نہیں ہوتی۔ وزیر اطلاعات کی لاکھ یقین دہانیوں کے باوجود آپ کبھی بھی اڑنے کی کوشش مت کیجئے گا۔آپ پر کفر اورالحاد کا الزام لگا کر آپ کو بلاسفیمی کی تہمت میں دھر لیاجاتا ہے۔ اگر عدالتوں نے آپ کو سزائے موت دینے میں تاخیر کی تو پھر جیل کے اندر عمر قید کاٹنے والا کوئی رہزن آپ کو موت کے گھاٹ اتار دےگا۔ آپ پر دس من چرس اور ہیروئن اسمگل کرنے کا بھی الزام لگ سکتا ہے۔ بلوچستان کے ہرد لعزیز شاعر گل خان نصیر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والی ناانصافیوں کا اپنی شاعری میں کھل کر اظہار کرتے تھے۔ ان کو خاموش کرنے کے لیے انتظامیہ نے گل خان نصیر پر بھینس چرانے کا الزام لگا کر ان کو جیل میں بند کردیا تھا۔ انیس سوپینسٹھ کی جنگ کے دوران سندھ کے ہر دلعزیز شاعر شیخ ایاز کو دھرلیا گیاتھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ وائرلیس پر دشمن کو خفیہ خبریں دیا کرتے تھے۔ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ شیخ ایاز فیوز بلب کی جگہ نیا بلب نہیں لگا سکتے تھے۔ وہ کسی قسم کی ٹیکنالوجی سے غیر مانوس تھے۔ مگر لگانے والے کرتا دھرتائوں نے ان پر دشمن ملک کو خفیہ معلومات فراہم کرنے کا الزام لگا کر ان کو جیل میں بند کردیا تھا۔ دراصل حقیقت کچھ اور تھی، جس سے کرتا دھرتا سخت ناراض تھے۔ شیخ ایاز جنگ وجدل کے خلاف تھے۔ انیس سوپینسٹھ کی جنگ کے دوران انہوں نے اپنے دوست شاعر نارائن شام کے نام غزل لکھی تھی۔ غزل میں انہوں نے ایک جگہ لکھا تھا:

یہ میدان جنگ ہے،

سامنے نارائن شام ہے،

میں اس کو گولی کیسے ماروں،

میں اس کو گولی کیسے ماروں

اظہار کی آزادی کی یقین دہانی کرانے والوں نے ان کوپابند سلاسل کردیا۔

میں اس نوعیت کے قصے کہانیوں سےو اقف ہوں۔ اسلئے خوفزدہ ہوں۔ کرکٹ کے فلسفہ سے آگاہ ہوں۔ اس پر عمل کرتا ہوں۔ بیٹنگ کرنے سے پہلے پچ کا جائزہ لیتا ہوں۔ غیر معین،اکھڑی ہوئی اور گیلی پچ سے میں ڈرتا ہوں۔ سردست میرے فاسٹ بالر اور ان کے وزیر اطلاعات حالات پر حاوی نہیں دکھتے۔بہت کچھ ان کے قابو اور اختیار میں نہیں ہے۔ اب اپنے فاسٹ بالر کے بارے میں لکھا جاسکتا ہے بغیر کسی خوف اور خطرے کے۔ موہن جو دڑو کے دور کا وکٹ کیپر ہونے کے ناطے میں خود کو سند یافتہ سمجھتا ہوں کہ فاسٹ بالر سے بات کروں۔ فاسٹ بالر کو مشورے دوں۔ میں نے باوثوق ذرائع سے تصدیق کی ہے کہ دور اقتدار کے دوران فاسٹ بالر کے صلاح کاروں اور مشیروں میں کوئی بھی کرکٹر نہیں تھا۔ کرکٹ کی بات کو چھوڑیں، کوئی ایک بھی فاسٹ بالر کا مشیر کھلاڑی نہیں تھا۔ انہوں نے گلی کوچوں میں گلی ڈنڈے کا کھیل تک نہیں کھیلا تھا۔ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ وکٹ کیپر اور فاسٹ بالر ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سمجھا سکتے ہیں۔ ایک پتے کی بات بتا دوں آپ کو۔ کسی وکٹ کیپر کا فاسٹ بالر کو سمجھنے کے لیے ایک ہی دور میں، ایک ہی ٹیم کے لیے، ایک ساتھ کھیلنا ضروری نہیں ہے۔ ایک گھاگ وکٹ کیپر دوسرے کسی دور کے فاسٹ بالر کو دیکھتے ہی اسے پہچان لیتا ہے۔ اسکے ظاہر اور باطن کا تجزیہ کرلیتا ہے۔ میرے گھاگ ہونے کی تصدیق اس بات سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ میں موہن جو دڑو کے دور کا وکٹ کیپر رہ چکا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میرے کالم کی گنجائش ختم ہوجائے اور گیند بائونڈری پارکرجائے، میں اپنے فاسٹ بالر کو کچھ مشورے دینا چاہتا ہوں۔

1۔ آپ نے بذات خود میچز میں نیوٹرل، غیر جانبدارامپائرز کا تقاضا کیاتھا۔ آج تک دنیا بھر میں کھیلے جانے والے میچز میں نیوٹرل امپائر امپائرنگ کرتے ہیں۔ وہ جانور نہیں ہوتے۔ آپ کی طرح آدمی ہوتے ہیں۔ فٹ بال میچز کے ریفری نیوٹرل ہوتے ہیں۔ مگر وہ جانور نہیں ہوتے۔ آدمی ہوتے ہیں۔ بندے دے پتر ہوتے ہیں۔ 2۔ ہر عقیدے کے سیانوں نے ایک ہی تلقین کی ہےکہ آدمی کو کم بولنا چاہیے۔ خوا ہ مخواہ بولتے چلے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کون جانے کب آپ کے منہ سے ایک نازیبا بات نکل جائے اور بن بلائی بلا آپ کے گلے پڑ جائے۔3۔ لوگوں کو ایک ہی بات بار بار سنانے سے آپ لوگوں کو بور کرتے ہیں۔ لڈو چاہے موتی چور کا ہو، آپ روزانہ صبح شام، رات موتی چور کے لڈو نہیں کھا سکتے یا کسی کو نہیں کھلا سکتے۔4۔ ایک بات یادرکھیں کہ آپ کے اردگرد تماشائی زیادہ اور آپ کے ہمدرد اور حامی کم ہوتے ہیں۔ وہ لوگ ٹھمکے لگانے اور تقریر کے دوران بجنے والی موسیقی پر ناچنے آتے ہیں۔ یہ جو آپ جم غفیر دیکھتے ہیں اور اپنا سر بادلوں سے اونچا محسوس کرتے ہیں، یہ لوگ آپ کے ووٹر نہیں ہیں۔ 5۔ آخری بات۔ ایک اوور Overمیں آپ چھ بائونسر نہیں ڈال سکتے۔ امپائر آپ کو ایسا کرنے نہیں دےگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)