دینی مدارس ہی مشکوک درمشکوک کیوں

September 28, 2013

جب سے موجودہ حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف بھرپور آپریشن کا آغاز ہوا ہے، تو ہرجگہ سے دہشت گرد گرفتار ہورہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے لے کر پنجاب یونیورسٹی تک، لیاری سے لے کر نائن زیرو تک، جماعت اسلامی کے بنگلوں سے لے کر پیپلزپارٹی کے اوطاقوں تک، منشیات کے اڈوں سے لے کر مری کے ریسٹ ہاؤس تک سے پکڑے جارہے ہیں۔ ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح تمام ہی سیاسی جماعتوں سے ثابت ہورہا ہے۔ ان دہشت گردوں میں فوجی بھگوڑوں سے لے کر پولیس سے بھاگنے والوں تک، نجی سیکورٹی ایجنسیوں سے وابستہ افراد سے لے کر مختلف مافیا گروپوں کے سرغنوں تک سب ہی شامل ہیں۔یہ مختلف قسم کی دہشت گردیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ دہشت گرد وںنے اپنے بھیانک مقاصد کی تکمیل کیلئے مختلف حلیے اپنائے اور کئی روپ دھارے ہوئے ہیں۔ کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کے فائیوسٹار ہوٹل ہوں یا مری، سوات، کا غان، ناران اور زیارت کے ریسٹ ہاؤس۔ کراچی یونیورسٹی کا آئی بی اے ڈپارٹمنٹ ہو یا پنجاب یونیورسٹی کا ہال نمبر ایک۔ مدارس کے تہہ خانے ہوں یا مساجد کے حجرے۔ ہر جگہ دہشت گردوں نے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈ رکھی ہیں۔ اب جواب طلب سوال یہ ہے جب دہشت گرد تمام جگہوں، علاقوں اور مقامات سے برآمدہورہے ہیں تو پھر مدارس ہی پر لعن طعن کیوں کی جارہی ہے؟دہشت گردی کا لیبل صرف مدارس پر ہی کیوں لگایا جارہاہے؟
گزشتہ دنوں جب پشاور میں عیسائیوں کے چرچ پر حملہ ہوا تو اس کے بعد بلاسوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے ایک دانشور نے اس کا سارا الزام مدارس پر لگاتے ہوئے طرح طرح کے سوالات اٹھانا شروع کر دیے۔ ’’مدارس کی حقیقت کیا ہے؟یہاں پڑھنے پڑھانے والے کون ہیں؟کیا جدید معاشرے کو مدارس کی ضرورت ہے؟کیا ان کا نظامِ تعلیم جدید ضرورتوں سے ہم آہنگ ہے؟ترقی پذیر ممالک کیلئے یہ بوجھ ہیں یا ریلیف کا ذریعہ؟مدارس کا نصاب اخلاق ساز ہے یا اخلاق سوز؟مدارس کا ماحول تنگ نظری سکھاتا ہے یا وسعت خیالی؟مدارس کا تربیت یافتہ انتہا پسند ہے یا روادار؟مدارس میں داخلہ لینے والے محروم ہیں یا خوشحال؟ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیاکہ مدارس میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ حالانکہ دینی مدارس کے ذمہ داروں کی طرف سے بار بار یہ پیشکش کی گئی ہے جس کسی کو مدارس کے بارے میں اس قسم کا شبہ ہو، اسے کھلی دعوت ہے وہ مدرسوں میں آکر خود دیکھے اور چاہے تو سراغ رسانی کے حساس ترین آلات استعمال کرکے پتہ لگائے آیا کہیں ناجائز ہتھیاروں یا ان کی خفیہ تربیت گاہ کا کوئی نشان ملتا ہے؟ اگر کسی مدرسے کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے وہاں دہشت گردی کی تربیت دی جارہی ہے یا اس قسم کی کوئی کارروائی ہورہی ہے تو اس کے خلاف مناسب کارروائی کا نہ صرف خیر مقدم کیا جائے گا بلکہ وفاقوں کے ذمہ دار حضرات بارہا یہ اعلان کرچکے ہیں ہم خود بھی اس کارروائی میں تعاون کریں گے لیکن مدارس کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا جاری ہے۔سوال یہ ہے اگر کسی مدرسے کے خلاف یہ بات ثابت ہوئی ہے تو اس کا نام اور اس کی شناخت کیوں منظر عام پر نہیں لائی جاتی؟ بعض مدرسوں کا لفظ استعمال کرکے تمام دینی مدارس کو آخر کیوں مشکوک اور مطعون قرار دیا جارہا ہے؟ صورتِ حال یہ ہے اول تو ابھی تک دینی مدرسے کے خلاف اس قسم کا کوئی الزام میری معلومات کی حد تک ثابت نہیں ہوسکا۔ چوہدری شجاعت حسین صاحب کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے اپنی وزارتِ عظمی کے دوران مدارس میں دہشت گردی کے الزام کی مکمل تحقیق کی اور کہا مجھے کسی مدرسے میں دہشت گردی کی تربیت کا کوئی سراغ نہیں ملا لیکن اگر فرض کریں 22ہزارسے زائد مدارس میں سے ایک دو مدرسوں کے بارے میں یہ الزام ثابت ہو بھی جاتا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس کی بنیاد پر تمام دینی مدارس کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے؟ کیا ملک بھر بلکہ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں بعض اوقات کچھ جرائم پیشہ افراد داخل نہیں ہوجاتے؟ کیا اس کی بنا پر تمام تعلیمی اداروں کو جرائم پیشہ قرار دے دینا عقل وانصاف کے کسی خانے میں فٹ ہوسکتا ہے؟
جتناپروپیگنڈہ دینی مدارس کے طلبہ، علماء اور صلحاء کے بارے میں کیا گیا ہے، شاید ہی اتنا کسی اور کے بارے میں ہوا ہو۔ دینی مدارس کے اُجلے دامن کو کن کن طریقوں سے داغدار کرنے کی بھونڈی کوشش نہیں کی گئی؟ دینی مدارس کو کس کس طرح دہشت گردی کے اڈے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی؟ جو کام کالج یونیوسٹیوں میں ترقی کی علامت قرار دیا گیا، اسے مدارس کے لیے قابلِ تعزیر گردانا گیا۔ دینی مدارس میں ہونے والی جسمانی ورزش کو دہشت گردی کی تربیت کہا جاتا ہے، جبکہ اسکولوں میں ہونے والی ورزش کو ’’ایکسرسائز‘‘ کا نام دیا گیا۔ کالج کا نوجوان اگر کراٹے کلب جاتا ہے، اسے ایتھلیٹ کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ مدارس کے لڑکے عصر کے بعد ریاضت کریں انہیں طالبانائزیشن کا خطرہ قرار دیا جائے۔ انصاف تو دیکھئے! جو کچھ مغرب اور مغرب زدہ افراد کریں وہ معیارِ تہذیب وتمدن کہلائے اور جو مدارس کے طلبہ، علماء اور صلحاء کریں وہ کمالِ جہالت کہلاتا ہے۔ یہ نام نہاد اسکالر دنیا بھر کے کارنامے اور فخر وافتخار کالجیوں کے نام اور ساری رسوائیاں اور الزامات اہلِ مدارس کے نام کردیتے ہیں۔ تیڑھا منہ کرکے انگریزی بولنے والوں کو پڑھے لکھے اور ’’قال اللہ وقال الرسول ‘‘کی صدائیں بلند کرنے والوں کو جاہل، اجڈ اور نکمے قرار دیتے ہیں۔ جعلی ڈگریوں والے قوم کے نمائندے کہلائیں جبکہ وفاق المدارس کی اعلیٰ سند کو وقتاً فوقتاً چیلنج کیا جاتا رہے۔ قومیت وتعصب کے بدبو دار نعرے لگانے والے سر عام ملک کو توڑنے کی بات کریں تو واہ واہ! اور اگر قرآن وسنت کے حاملین دل جوڑنے کی بات کریں تو نفرین اور آہ آہ۔ کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے والے آزاد اور کراچی کے مدارس کے طلبہ وعلماء کی خصوصی نگرانی اور انکوائری۔ یہ سب کیا ہے؟ مدارس کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیوں؟ یکایک علمائے کرام کے خلاف معروف دانشوروں سے کالم کیوں لکھوائے جاتے ہیں؟ میڈیا کے ٹاک شوز میں علماء اور اسلامی شعائر کا احترام نہ کرنے والوں کو بطور خاص کیوں بلایا جاتا ہے؟ کسی بھی عام گائوں کی مسجد کے غیر عالم امام اور صرف حفظ کرکے گھر میں ٹیوشن پڑھانے والے کسی بھی شخص کی انفرادی غلطی کو علماء کے سر تھوپنے اور پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟
مدارس پر ہر طرف سے اعتراضات اور طعنوں کی بوچھاڑ ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں، جتنی باتیں اتنے طعنے ہیں۔ ’’یہ زمانے کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ یہ بسم اللہ کے گنبد میں بند۔ ان کی دوڑ مسجد تک۔ ان کی باتیں ہماری عقل سے ماورا۔ ان کا طرزِ زندگی معاشرے سے میل نہیں کھاتا۔ یہ نیم خواندہ ملا، کٹ حجتی ان کی عادت، کج بحثی ان کا وتیرہ، کنفیوژن پیدا کرنا ان کامشغلہ ہے۔ نام نہاد دانشوروں نے سطحیت اور جاہلیت کاطعنہ دیا مگر انہیں مطالعے سے فرصت نہیں کہ تہمتوں کا جوا ب دے سکیں۔ وہ ہر دور میں زمانے کے قد م سے قدم ملاکر چلے مگر کج رفتاری کا ساتھ نہ دیا۔ وہ بسم اللہ کے گنبد میں بند رہے مگر کسی کوٹھے کی زینت کبھی نہ بنے۔ ان کی باتیں عقل سے ماورا نہیں، بلکہ مادیت پرست عقلوں پر ردائے تیرگی پڑی ہوئی ہے۔ ان کاطرزِ زندگی معاشرے سے میل کھاتا ہے لیکن وہ اپنے رہن سہن پر مغربی چھاپ نہیں لگانا چاہتے۔ نیم خواندہ اس لئے کہا گیا کیونکہ و ہ اپنے پاکیزہ علم کی سند کسی ٹام اور ہیری سے نہیں لیناچاہتے۔ ان کی جیب گل زر کامل عیار سے خالی سہی مگر وہ کسی جمشید کے ساغر نہیں بنے۔ ا پھبتیاںان کے قدم روکنے کے بجائے شوق کو مہمیز دیتی ہیں۔ ان کے نصاب تعلیم پر وہ بات کرتے ہیں جو خود لارڈ میکالے کے یبوست زدہ دماغ سے خیرات مانگتے ہیں۔ روشن حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس نے ناگفتہ بہ حالات میں بھی روکھی سوکھی کھاکر دین کا تحفظ کیا ہے، ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ہے۔ خواندگی کی شرح میں حیرت ناک اضافہ کیا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو تحفظ دیا ہے۔ الٹراماڈرن اور طبقہ اشرافیہ کے نوجوانوں کو دینی تعلیم اور مہذب اخلاق سے آراستہ کیا ہے اور انتہائی شفاف اور محدود مالی وسائل میں محیر العقول کارنامے انجام دیے ہیں اس پر امریکہ اورمغرب حیرت سے گنگ ہیں مگر ہمارے ہاں کا ایک مرعوب، مغرب کا پروردہ طبقہ بلاوجہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی سعی لاحاصل میں لگا ہوا ہے ۔