کیوں نہ پارلیمنٹ کو ختم کردیا جائے؟

May 19, 2022

نوازشریف نے17فروری1997ء کو دوسری بار بطور وزیراعظم حلف اُٹھایا توپہلی فرصت میں 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 58(2b)کے تحت صدرِ مملکت سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا اور پھر 14ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973کے آئین میں آرٹیکل 63Aمتعارف کروایا۔اس ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعت کے سربراہ کو اختیار دیا گیا کہ اگر کوئی رُکن پارلیمنٹ جماعت کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتا ہے یا پھر ایوان میں پارٹی کی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو اسے منحرف رکن اسمبلی قرار دیتے ہوئے ایوان سے اُٹھاکر باہرپھینکا جاسکے گا۔اس ترمیم کے مطابق چیئرمین سینیٹ،اسپیکر یا پھر الیکشن کمشنر کی حیثیت محض ڈاکخانے کی سی تھی۔سیاسی جماعت کے سربراہ نے فیصلہ کرنے کے بعد خط لکھ کر اسپیکر قومی اسمبلی کو آگاہ کرنا تھا۔اسپیکر یہ خط 2 دن میں چیف الیکشن کمشنر کو بھیجنے کا پابند تھا اور الیکشن کمیشن نے 7 دن کے اندر اس رکن اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنا تھا۔ اس قانون سازی کی وجہ یہ تھی کہ نوے کی دہائی میں دونوں سیاسی جماعتیں مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی فلورکراسنگ سے تنگ آچکی تھیں اور انہیں یہ حقیقت معلوم ہوگئی تھی کہ جب تک لوٹاازم پر پابندی نہیں لگائی جاتی، سیاسی بندوبست کا اہتمام کرنے والے کسی وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دیں گے۔اس کے بعد جب 15ویں آئینی ترمیم کے ذریعے شریعت بل متعارف کروایا گیا تو مسلم لیگ(ن)کی صفوں میں واضح اختلاف رائے موجود تھا لیکن 63Aکے خوف سے کسی رکن قومی اسمبلی کو اس کے خلاف ووٹ دینے کی ہمت نہ ہوئی۔شریعت بل قومی اسمبلی سے تو منظور ہوگیا مگر سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کے سبب یہ ترمیم ادھوری رہ گئی۔پرویز مشرف کے دور میں17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فلور کراسنگ کے قانون کی شدت گھٹا دی گئی۔پارٹی ضابطۂ اخلاق جیسی مبہم اصطلاح پر اراکین اسمبلی کو فارغ کرنے کے بجائے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخاب،اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ، منی بل یعنی بجٹ کے موقع پر یا آئینی ترمیم کی صورت میں پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے کو انحراف قرار دیا گیا اور ایسی صورت میں بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کو مکمل اختیارات دینے کے بجائے کارروائی کرنے کا طریقہ کار طے کیا گیا۔اب یہ صورت تھی کہ انحراف کی صورت میں پارٹی کا سربراہ محض خط لکھ کر آگاہ کرنے کے بجائے اسپیکر کو ریفرنس بھیجے گا اور جب اسپیکر یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو ارسال کرے گا تو وہ متعلقہ رکن اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کا پابند نہیں ہوگا بلکہ اس ریفرنس کو خارج بھی کرسکے گا۔اگر اس ریفرنس کی صورت میں کسی رکن پارلیمنٹ کو فارغ کردیا جاتا ہے تو اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی جا سکے گی۔ اسی دور میں پیپلز پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی نے فارورڈ بلاک بناکر ظفراللہ جمالی،چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز کو ووٹ دیا مگر حیرت انگیز طور پر پیپلز پارٹی کی طرف سے ان ارکان کے خلاف کوئی ریفرنس فائل نہیں کیا گیا۔اس کے بعد جب 2010 میں پیپلز پارٹی نے 18ویں آئینی ترمیم منظور کروائی تو 63Aکو مزید بہتر کردیا گیااور اب وفاداری بدلنے یا پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دینے پر ریفرنس بھیجنے کا اختیار سیاسی جماعت کے سربراہ کے بجائے پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا۔

اس ترمیم کے نتائج جلد ہی سامنے آگئےجب ججوں کی بحالی پر اختلافات ہوئے اور مسلم لیگ (ن) نے مرکز میں وزارتیں چھوڑ دیں توفروری 2011 میں پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کو صوبائی کابینہ سے الگ کردیا گیا۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ برقرار رکھنے کے لیے مسلم لیگ (ق)کے فارورڈ بلاک نے کندھا فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔عطا مانیکا نے یونیفکیشن بلاک بنا کر دعویٰ کیا کہ انہیں 51ایم پی ایز کی حمایت حاصل ہے اور پھر انہوں نے 47ارکان صوبائی اسمبلی ظاہر کردیے۔مسلم لیگ(ق) چیختی چلاتی رہی کہ یہ لوٹے ہیں،ان پر انحراف کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے مگر ایک قانونی سقم کے باعث انہیں ایوان سے نہ نکالا جا سکا۔نئی ترمیم کے مطابق سیاسی جماعت کے سربراہ کے بجائے پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ریفرنس بھیج سکتا تھا۔ویسے تو مسلم لیگ(ق)کی قیادت نے چوہدری ظہیر الدین کو پارلیمانی لیڈر مقرر کیاتھا لیکن مسلم لیگ (ق)کے 75ارکان صوبائی اسمبلی میں سے 47 اراکین یونیفکیشن بلاک کے ساتھ تھے لہٰذا پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رانا اقبال سے مطالبہ کیا گیا کہ نہ صرف ان کے لیے ایوان میں الگ نشستیں مقرر کی جائیں بلکہ ڈاکٹر طاہرجاوید کو پارلیمانی لیڈر مقرر کرنے کی منظوری دی جائے۔تاثر یہ دیا گیا کہ انحراف تو تب ہوجب چند ارکان اکثریتی فیصلے کے خلاف جائیں، یہاں تو اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور ہم نے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔

2018 کے انتخابات کے بعد تاریخ نے خود کو دہرایا اور خانیوال سے ایم پی اے نشاط خان ڈاہا مرحوم نے میاں جلیل شرقپوری اور دیگر ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ ملکر مسلم لیگ(ن) میں فارورڈ بلاک بنایا اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حمایت کااعلان کردیا۔ گزشتہ ماہ حمزہ شہباز تحریک انصاف کے منحرف ارکان سے ووٹ لیکر وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔وفاق میں بھی تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیج کر آئین کے آرٹیکل 63Aکی تشریح چاہی۔اس ریفرنس پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے قرار دیا ہے کہ منحرف ارکان کی طرف سے ڈالا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔یوں لگتا ہے ہم دائروں میں گھوم رہے ہیں اور پھر وہیں آکھڑے ہوئے ہیں جہاں سے چلنا شروع کیا تھا۔اگر ارکان اسمبلی کوووٹ کا حق نہیں اور ان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا تو پھر ووٹنگ کا تردد اور تکلف کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟بلکہ ارکان پارلیمنٹ کے الیکشن لڑنے اور اس پورے نظام پر اس قدر سرمایہ لگانے کی کیا منطق ہے؟لوگ ہر حلقے میں پارٹی سربراہ کو ووٹ ڈالیں او رکسی چھوٹے سے دفتر میں بیٹھ کر چار پانچ لوگ ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کریں۔اگر ووٹ شمار نہیں ہوگا تو آرٹیکل63A سمیت کئی شقیں غیر موثر ہو جائیں گی۔ کیا معزز جج صاحبان کے پاس آئین کو غیر موثر کرنے کا اختیار ہے؟کسی نے برمحل تبصرہ کیا ہے کہ جس طرح پانامہ پر سنائے گئے فیصلے میں وصول نہ کی گئی تنخواہ کواثاثہ شمار کرلیا گیا، اسی طرح اب ڈالے گئے ووٹ کو گنا نہیں جا رہا۔ووٹ گنا جائے گا تبھی تو انحراف کا ارتکاب ہوگا اور متعلقہ رُکن اسمبلی کو ڈی سیٹ کیا جاسکے گا۔