بلند نصب العین کی بے مثل طاقت

May 20, 2022

جناب نسیم حجازی کا قد جس قدر طویل تھا، اُسی قدر اُن کے عزائم جلیل تھے۔ اُنہوں نے استقامت اور خودداری کا سبق مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے عظیم کردار اَور حُسنِ بیاں کا ہنر اُن کی تحریروں سے سیکھا۔ اُن سے قلبی تعلق کا یہ عالم تھا کہ وہ جب ایبٹ آباد سے لاہور آنے کا پروگرام بناتے، تو اپنے نوجوان عزیز، جاوید نواز کو پیغام بھیجتے کہ میرے دس پندرہ دوستوں سے ملاقات کا انتظام کیا جائے۔ اُن میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کا اسمِ گرامی سرِفہرست ہوتا۔ اُن کے بیٹے خالد کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، تو نسیم حجازی مولانا مودودی کے پاس پہنچ گئے کہ آپ ہی نومولود کا نام رکھیں گے۔ مولانا نے خاندانی مزاج کے مطابق صلاح الدین تجویز کیا جسے پورے خاندان نے اپنے لیے بہت بڑی خوش قسمتی جانا۔ اُن کے ناول ہاتھوں ہاتھ بک رہے تھے۔ نوجوان جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر فوج میں جا رہے تھے اور پاکستان کی عظمت میں اضافہ کر رہے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل حمید گُل جو ہمارے معاشرے میں ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں، لکھتے ہیں کہ مَیں نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر فوج میں بھرتی ہوا۔ اِسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خاں جنہیں دنیا میں ایک عظیم ایٹمی سائنسدان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، وہ بڑے فخر سے اعتراف کرتے ہیں کہ مجھ میں کچھ کر گزرنے کا ولولہ نسیم حجازی کے ناولوں سے پیدا ہوا تھا۔

قدرت اُنہیں کراچی سے بلوچستان لے گئی جہاں اُنہوں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جس پر ہماری تاریخ فخر کرتی رہے گی۔ وہ 1942 میں سردار جعفر خان جمالی کے بچوں کے اتالیق کی حیثیت سے بلوچستان گئے اور اُنہیں وہاں کے حالات قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ایک قبائلی معاشرہ تھا جس میں سرداروں کی حکمرانی تھی۔ ساحلِ مکران پر دیسی ریاستوں نے خان قلات کے ساتھ کنفیڈریشن قائم کر رکھی تھی۔ عام شہریوں میں سیاسی شعور اِنتہائی محدود تھا، چنانچہ سردار جعفر خان جمالی کی اعانت سے جناب نسیم حجازی نے ہفت روزہ ’تنظیم‘ جاری کیا اور اُس میں وہ مسلمانوں کی تہذیبی اور سیاسی بقا کے لیے کم و بیش وہی دلائل شائع کرتے رہے جو سیّد مودودی ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ میں دے چکے تھے۔ اُن کی پُرجوش اور طاقت ور آواز پورے بلوچستان میں گونجنے لگی۔ اُنہوں نے مسعود کھدرپوش، جو اُن دنوں بلوچستان میں اعلیٰ منصب پر تعینات تھے، اُن کی اعانت، نواب اکبر بگٹی اور جام غلام قادر لسبیلہ کے بھرپور تعاون سے بیوروکریسی اور شاہی جرگے میں ایسی دَانش مندی اور مستعدی سے کام کیا کہ پورا بلوچستان پاکستان کا حصّہ بن گیا۔ اُن تاریخی لمحات میں نواب جوگیزئی نے برجستہ کہا تھا کہ اگر نسیم حجازی نہ ہوتے، تو بلوچستان پاکستان میں شامل نہ ہوتا۔

اُن کی شخصیت کا یہ کمال بھی غایت درجہ بلند ہے کہ اُنہوں نے اخبارات ’تعمیر‘ اور ’کوہستان‘ کے ذریعے اسکندر مرزا اَور اَیوب خان کے آمرانہ رویوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا اور حکمران سیاست دانوں کو بروقت صحیح مشورے بھی دیے۔ 1950 کے وسط میں خان عبدالقیوم خان پاکستان مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے بڑے بڑے جلوس نکال رہے تھے اور وُہ فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جناب نسیم حجازی نے اُنہیں سمجھایا کہ صدر اَسکندر مرزا محض ایک سیاسی جماعت کے احتجاج کے دباؤ میں کبھی انتخابات کی طرف نہیں آئے گا۔ اِس کے لیے قدآور سیاسی شخصیتوں کو جمع کرنا اور اُن کی طرف سے متفقہ آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ اُن کے مشورے پر خان عبدالقیوم خان نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور چودھری محمد علی سے ملاقاتیں کیں اور اِتفاقِ رائے پیدا کیا۔ نسیم حجازی صاحب نے اُن کی طرف سے مشترکہ بیان تیار کیا جس پر تینوں قائدین نے دستخط کیے۔ روزنامہ کوہستان میں اُسے صفحۂ اوّل پر شائع کرنے کا اہتمام ہوا، مگر اُسی رات بارہ بجے اطلاع آئی کہ ملک میں مارشل لا نافذ ہو چکا ہے۔ مزید براں ’سفید جزیرہ‘ جناب نسیم حجازی کی ایک ایسی لاثانی تخلیق ہے جس میں اسکندر مرزا کی سازشوں کا مزاحیہ انداز میں احاطہ کر کے آنے والے حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کا نہایت عمدہ اہتمام کیا گیا ہے۔

اُن کے کارنامے ایک ایک کر کے یاد آ رہے ہیں۔ یہ 1968 کا وسط تھا کہ مَیں، جاوید نواز اور محترمی نصیر سلیمی اُن سے ملنے ایبٹ آباد گئے۔ اُس وقت قوم نئی قیادت کی تلاش میں تھی۔ نسیم حجازی نے ہمارا تعارف ایئرمارشل اصغر خان سے کرایا جو پاکستان ایئرفورس کو ناقابلِ تسخیر طاقت بنانے کی شہرت رکھتے تھے۔ طے پایا کہ اُنہیں متبادل قیادت کے طور پر سامنے لایا جائے۔ ہماری اُن دنوں ’ایوانِ افکار‘ کے نام سے ایک تنظیم بہت متحرک تھی۔ ہم نےجنگِ ستمبر کے حوالے سے تقریب میں ایئرمارشل صاحب کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ اُنہوں نے پیش گوئی کی کہ مَیں چند مہینوں اور چند ہفتوں میں بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔ وہ تقریر پہلی بار تمام اخبارات میں شہ سرخیوں سے شائع ہوئی اور تبدیلی کا عمل تیزتر ہو گیا۔ اُنہوں نے سیاسی جماعت بنائی جس کا نام مَیں نے ’جسٹس پارٹی‘ تجویز کیا جو ایئرمارشل کو بہت پسند آیا۔ ہمہ گیر احتجاج کے باعث ایوب خان کو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرنا پڑا۔ اُس کے بعد ایئرمارشل اصغر خان کئی برسوں قومی سیاست پر چھائے رہے۔ وہ پی این اے کی تحریک میں سب سے مقبول لیڈر تھے۔ معاشرے کے سنجیدہ طبقے اُن کی طرف کھنچے آئے تھے، مگر وہ اَپنے بیٹوں کے ہاتھوں گم نامی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔

جناب نسیم حجازی کے ناول ایک طرف مسلمانوں کی عظمت و شوکت کی شاندار تصویرکشی کرتے ہیں اور دُوسری طرف اُن سازشوں کا تفصیل سے نقشہ کھینچتے ہیں جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بنتی رہی ہیں۔ اُن کے چار ناولوں کا پس منظر ہسپانیہ ہے جو مسلمانوں کی شان و شوکت اور زوال کی پرانی داستان ہے۔ علامہ اقبال کے بعد جناب نسیم حجازی نے اندلس اور مسجدِ قرطبہ کا ذکر اَپنی تحریروں میں زندہ رَکھا ہے۔ اُن کا تخلیقی جوہر اُس سے کہیں بلند ہے جو ہمیں آج ’ارطغرل‘ کے تمثیلی کردار میں نظر آتا ہے جس نے کروڑوں نوجوانوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ اگر آج اُن کے ناول ڈرامائی انداز میں پیش کیے جائیں، تو ایک صحت مند سماجی اور ذہنی انقلاب آ سکتا ہے۔ (جاری ہے)